اشتہار برائے نجکاری کرونا وائرس

اشتہار برائے نجکاری کرونا وائرس
ایک عدد وائرس نام جس کا ہے کرونا وائرس، جس سے حکومت کا پالا تقریبا اڑھائی ماہ قبل پڑا ہے، اسکی دو روزقبل حکومت نے نجکاری کرنے کا فیصلہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ یہ بنی ہے کہ ایک تو یہ وائرس انتہائی ڈھیٹ واقع ہوا ہے کہ حکومت کے قابو سے مسلسل باہر ہے اور دوسرا یہ کہ اس وائرس کو دکھا کر بھیک مانگنے سے اتنا پیسہ حکومت کے پاس اکھٹا نہیں ہوا ہے جتنا کہ اندازہ تھا۔ مالیاتی ادروں نے بھی ابھی تک مزہ نہیں دیا اور بھیک منگائی کی چم چماتی محفل میں بھی چونگے میں 55 کروڑ جمع ہوا اور ملا منافق کے کپڑے علیحدہ گنوانے پڑے ہیں۔

اس ضمن میں یہ بھی اہم بات ہے کہ یہ کرونا نام کا وائرس پی آئی اے، کراچی سٹیل ملز اور دیگر اداروں کی مانند ابھی تک سفید ہاتھی ثابت ہوا ہے جس پر حکومت کو اپنی جیب سے اربوں روپیہ لگانا پڑ رہا تھا اور جیسا کہ بتایا  گیا ہے کہ وہ حکومت کو کچھ بھی کما کر نہیں دے رہا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے خان خاناں کی عظیم حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ اس پر اربوں روپیہ لگانے کی بجائے اس کے حصص بازار میں فروخت کردیا جائے۔

جس کے بعد اب اب اسکے حصص کو 21 کروڑ لوگوں کو انکی جانوں کے عوض زبردستی بیچنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ نجکاری کے اس عمل کے بعد اب حکومت کرونا کے کسی بھی قول و فعل کی ذمہ دار نہ ہوگی اور پاکستان کے 21 کروڑ عوام اس سے اپنا معاملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ کرونا اور اسکے مالک یہ عوام چاہے طے کریں کہ انہیں کرونا کی لوریوں میں ابدی نیند مرنا ہے یا  پھر طے کریں کہ بیمار ہو کر بچنا ہے یہ تمام فیصلوں میں اب حکومت کا کوئی کردار نہ ہوگا۔ اس سلسلے میں اب کوئی کلیم مانگا جا سکے گا نہ ہی کسی قسم کی امداد دینے کی حکومت پابند ہو گی۔ نیز کرونا سے لڑنے یا ڈرنے کا فیصلہ بھی عوام کرنے میں آزاد ہوں گے۔ 

ہاں البتہ نجکاری کے اس معاہدے کےبعد اگر لاشوں کے ڈھیروں پر مغربی قوتوں کی جانب سے ڈالر ملنے کی صورت میں کرونا وائرس منافع بخش شکل اختیار کر گیا تو حکومت اسے فوری طور پر قومیانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

اس بابت حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور اب مشتہر کردیا ہے۔