کرونا وائرس لاک ڈاؤن: وزیراعظم صاحب! پرائیویٹ سکولوں کو بھی ریلیف پیکج کی ضرورت ہے

کرونا وائرس لاک ڈاؤن: وزیراعظم صاحب! پرائیویٹ سکولوں کو بھی ریلیف پیکج کی ضرورت ہے
کرونا وائرس نے 200 سے زائد ممالک اور ریاستوں میں صحت، تعلیم و معیشت کو نہ صرف مزید زبوں حالی کی جانب گامزن کیا بلکہ اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی منزل کی متلاشی معاشی کشتی جو کہ پہلے سے بیچ سمندر ہچکولے لے رہی تھی اور اسے اپنی منزل تک کا پتہ نہ تھا۔ کرونا وائرس نامی وبا نے معیشت کی اس کشتی کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ کرونا وائرس اس معاشی کشتی کے لئے سائیکلون نامی سمندری طوفان ثابت ہوا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

عمران خان کا شمار مسلم امہ کے دو عظیم لیڈران میں ہوتا ہے اور لیڈر کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ حالات سے ہارنے کے بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وزیراعظم صاحب اس وقت کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی چیلنجز کا سامنا نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ حکومت کا ہر فیصلے اس وبا سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کچلنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ ویسے تو وزیراعظم صاحب 2018 کے عام انتخابات سے قبل بلند وبانگ دعوے کرتے تھے کہ قومیں میٹرو اور سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں، میں اقتدار میں آکر تعلیم پر خرچ کروں گا۔ ملک کا تعلیمی سٹرکچر اور شرح خواندگی کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی مناسب فیصلہ لگتا تھا۔ اور عوام کی دلی خواہش تھی کہ ان کے بچوں کو معیاری تعلیم مہیا ہو۔ لیکن یہ وعدہ وفا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔

اب کرونا نامی وبا کے بعد تو ہمارا شعبہ تعلیم مزید مشکلات سے دوچار اور خستہ حالی کا شکار ہوجائے گا۔ دیکھا جائے تو حکومت نے لاک ڈاؤن سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے پیش نظر بے روزگار اور کاروباری افراد کے لئے ریلیف پیکجز کا اعلان کیا اور ان میں رقم تقسیم کرچکے ہیں۔ بے روزگار افراد کیلئے وزیراعظم عمران خان نے 6.6 ملین خاندانوں کیلئے 81 بلین روپے کے کرونا ریلیف فنڈ کا اعلان کیا ہے جبکہ لاک ڈاؤن سے چھوٹے کاروبار کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے ضمن میں بھی حکومت بلاسود ریلیف سکیم کا اعلان کرچکی ہے، جو کہ چھوٹے تاجروں کو اپنا کاروبار بحال کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔

تعلیمی اداروں میں کرونا وائرس کی روک تھام سے متعلق احتیاطی تدابیر پر من و عن عملدرآمد کرنا ناممکن تھا، اسی لئے حکومت نے بچوں و نوجوانان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا جس میں دوبار توسیع کرتے ہوئے 15 جولائی تک تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ سکول و کالجز کے طلبہ و طالبات کو پچھلے امتحانات کی کارکردگی کی بنیاد پر پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے سکول و کالجز سے متعلق اپنا فیصلہ واضح طور پر پیش کردیا ہے مگر مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کا کیا مستقبل ہوگا؟ اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بارے بھی کوئی واضح فیصلہ کرے۔

دوسرا یہ کہ کرونا کے باعث تعلیمی ادارے بند ہیں۔ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ تعلیمی نظام خستہ حالی کا شکار ہے، چونکہ تعلیم کو فروغ دینے کیلئے پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن بے روزگاری کے اس عالم میں لوگ پرائیویٹ سکولوں و کالجوں کی فیسیں کہاں سے اور کیسے ادا کریں؟ اور اگر لوگ فیسیں ادا نہیں کریں گے، تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان سکول و کالج عمارتوں کا کرایہ کہاں سے ادا کریں گے۔

کرونا وائرس سے بڑھنے والی بے روزگاری اور غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں پر 20 فیصد کٹ لگا دیا گیا ہے۔ مگر باقی کا 80 فیصد بچوں کے والدین کہاں سے ادا کریں؟ کسی بھی خوشحال ملک و قوم کیلئے روزگار، صحت، تحفظ سے متعلق سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہوتا ہے کہ ان کو بہتر تعلیم بھی مہیا کی جائیں۔ یہ نہ صرف ملک و قوم میں شعور پیدا کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے بلکہ تعلیم سے ہی اقوام کی ترقی و خوشحالی منسلک ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جہاں انہوں نے بے روزگار افراد کیلئے کرونا ریلیف پیکج، اور چھوٹے کاروبار کیلئے بلاسود ریلیف سکیم کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیساتھ بھی مل بیٹھ کر عوام اور ان اداروں کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کریں تاکہ تعلیمی نظام مزید مشکلات سے دوچار ہونے اور خستہ حالی کی طرف جانے سے بچ سکے۔

کرونا وائرس نے پوری دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ہمارا مقصد ہتھیار بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا نہیں، جنگجوؤں کو پیدا کرنا نہیں۔ بلکہ ہمارا ہدف تعلیم کو فروغ دے کر ڈاکٹر، انجینئیر، وکیل، صحافی، پروفیسر وغیرہ پیدا کرنا ہے۔ جبکہ اسلحہ کی فیکٹریاں اور ہتھیار بنانا نہیں، بلکہ ہسپتال اور وینٹی لیٹر بنانا ہے۔ اس دنیا کو نفرت و جنگ کی نہیں محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ اسے مزید آگ کے شعلوں میں جھونکنے سے بچانا ہوگا۔ تمام ممالک اور لیڈران کو باہمی اختلافات بھلا کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے اور تمام مسائل جو جنگ و جدل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ان کو ختم کرنا ہوگا۔ تاکہ کرونا جیسی کسی اور وبا کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا ہمہ وقت تیار رہے اور قیمتی انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔