ترقی کے بیانات کے سائے تلے ہر گزرتے دن کے ساتھ گوادر کے شہریوں کے خدشات، خوف اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک بار پھر سے گوادر میں چائے کے ہوٹلوں سے لے کر سرکاری دفاتر میں زیربحث موضوع 'گوادر میں باڑ' لگنے کا ہے۔ دور جدید میں جہاں ملکوں کی بین الاقوامی سرحدوں پر بھی باڑ لگانے کی حرکتیں عجیب لگتی ہیں، وہاں کسی شہر کے اندر محض چند عمارتوں، دو تین سڑکوں اور ان سڑکوں کے کنارے لگی سٹریٹ لائٹس کے تحفظ کے لیے باڑ لگانا ناصرف انتہائی عجیب ہے بلکہ ذہنی پسماندگی کے ساتھ ساتھ حالت جنگ میں اپنے ہوش و حواس کھو دینے کے مترادف ہے۔
گذشتہ ماہ 26 اپریل کو کوسٹل ہائی وے پر گوادر کی مضافاتی آبادی کے مکینوں نے احتجاجاً روڈ بلاک کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں بتائے بغیر ان کی زمینوں پر گڑھے کھودے جا رہے ہیں۔ اتفاق سے گڑھے کھودنے کا مقام بھی وہی ہے جہاں تین سال پہلے شہر میں باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت شدید عوامی ردعمل اور احتجاج کے بعد باڑ لگانے کا کام تو روک دیا گیا تھا مگر باڑ کے نقوش گوادر کے عوام کے ذہنوں سے مٹ نہ سکے بلکہ اس عمل نے گوادر کے مضافات میں آباد شہریوں کو اس قدر نفسیاتی مریض بنا دیا ہے کہ اب جب بھی وہ سکیورٹی فورسز کو گڑھے کھودتے دیکھتے ہیں تو انہیں سی پیک کے ثمرات کے بجائے خود کو غزہ کی طرح گوادر میں محصور ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
گوادر کے ترقیاتی منصوبوں کے یہاں کے شہریوں پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اخباری بیانات اور ٹی وی پروگراموں میں تو بتایا گیا تھا کہ سی پیک ایک عظیم منصوبہ ہے جو ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے۔ یعنی اس پروجیکٹ میں جنوبی ایشیا کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑنا تھا۔ بحیرہ بلوچ کے گرم پانیوں کو ہمالیہ کے بلند پہاڑوں سے قریب تر کرنا تھا مگر کیا وجہ ہے کہ باوجود ایسے دعوؤں اور یقین دہانیوں کے گوادر کے شہری خود کو باڑ کے پیچھے محصور ہوتے دیکھ رہے ہیں؟ انہیں ایسی بے بنیاد باڑ کے خواب کیوں آتے ہیں؟ حکومتی مؤقف کے مطابق باڑ کی خبریں بے بنیاد اور محض افواہیں ہیں لیکن سی پیک والے شہر کے باسی کروڑوں روپوں کے اشتہارات، حکومتی یقین دہانیوں اور ترقیاتی کاموں کے باوجود ایسی 'بے بنیاد افواہوں' کو اس قدر سنجیدگی کے ساتھ کیوں لیتے ہیں؟
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
گذشتہ دنوں ایک پی ایچ ڈی کی طالبہ اپنی ریسرچ سے متعلق ادارہ ترقیات گوادر کے دفتر سے لوٹنے کے بعد کہہ رہی تھیں کہ ادارہ ترقیات گوادر کے ایک آفیسر نے شکایت کی ہے کہ مصر سے منگوائی گئی سٹریٹ لائٹس کو گوادر کے شہری اون نہیں کرتے یعنی اپنا نہیں سمجھتے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مصر سے سٹریٹ لائٹس تک منگوائی گئی ہیں مگر ایران سے آنے والی بجلی کبھی پوری کیوں نہیں آتی؟ گوادر کا شہری اس لائٹ کو کیسے اون کرے جبکہ ان کے گھر میں لگی لائٹ میں روشنی نہ ہو؟
باڑ سے متعلق سرکاری مؤقف ہے کہ شہر میں کسی قسم کی کوئی باڑ نہیں لگائی جا رہی بلکہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت صرف کیمرے نصب کیے جائیں گے۔ اور اس پروجیکٹ پر سرکاری معلومات کے مطابق اربوں روپے خرچ کیے جائیں گے مگر کیا اس سے شہریوں کے ذہنوں سے باڑ کے نقوش مٹ جائیں گے؟ تین اطراف سے سمندر میں گھرا یہ چھوٹا سا شہر دو مہینے گزرنے کے باوجود بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور اربوں روپے کیمرے نصب کرنے پر خرچ کیے جائیں تو کیا گوادر کے شہری ان کیمروں کو مصری سٹریٹ لائٹس کی طرح اون کریں گے؟
بقول سرکاری مؤقف کے کہ باڑ کی خبریں افواہیں ہیں، مگر یہ افواہیں بھی اتنا سوچنے کا موقع ضرور دیتی ہیں کہ فزیکل باڑ لگے یا نہ لگے مگر سرکاری اقدامات اور عوامی بے چینی کے بیچ ایک مضبوط قسم کی باڑ لگ چکی ہے۔ باڑ کے ایک طرف سیف سٹی کے اربوں روپوں کے اعلیٰ کوالٹی کے کیمرے ہیں، عالیشان عمارتیں اور سڑکیں ہیں، ان سڑکوں کے کنارے مصر سے منگوائی گئی سٹریٹ لائٹس ہیں، پھر ان کیمروں اور سٹریٹ لائٹس کی حفاظت کے لیے کوئی اور میگا سکیورٹی پروجیکٹ بھی ہو گا لیکن باڑ کی دوسری طرف بے چینی ہے، محصور ہونے کا خوف ہے، بے دخلی کا خدشہ ہے اور ایک مضبوط آئینی باڑ ہے۔