Get Alerts

گوادر پہلے ہی چھاؤنی ہے، باڑ لگا کر اسے لوگوں کیلئے جیل مت بنائیں

آپ گوادر کو جو بھی کہیں، ریاستی میڈیا ریاستی بیانیے کے تحت اسے کسی بھی زاویے کی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے، کرایے کے سیاح و میڈیا انفلوئنسرز گوادر کا جو بھی رنگ دنیا کو دکھائیں لیکن سچ یہ ہے کہ گوادر بلوچوں کے لیے چھاؤنی ہی رہا ہے، تاہم فزیکل چھاؤنی شاید آنکھوں کے لیے نئی بات ہو۔

گوادر پہلے ہی چھاؤنی ہے، باڑ لگا کر اسے لوگوں کیلئے جیل مت بنائیں

تاریخ کے ان مٹ اوراق دوبارہ ٹٹولے جائیں تو گوادر کی باڑ اب ہمیں دوسری قسط ہی میں ملے گی۔ اس سے پہلے چار سال سال قبل گوادر ایک علی الاعلان چھاؤنی بن رہا تھا اور بحثِ عامہ میں اپنی اپنی بساط کے مطابق تجزیے، تبصرے، خبر، پریشانی کو کتھارسز کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

ہم جس گوادر کو جانتے ہیں وہ عرصہ دراز سے نیم چھاؤنی ہی ہے۔ کوئی سیاح فاضل چوک کو دیکھے، قدیم گوادر کو دیکھے، مضافات میں دیکھنے جائے تو ہر سو پرچم کے نیچے ایک چوکی، مسلح بردار اہلکار ضرور دیکھے گا۔ قریب جائے تو کدھر سے آئے ہو، کدھر جا رہے ہو لازماً سنے گا، دیکھے گا اور خوف کے سائے تلے عمل کر کے تلاشی دینے سے بھی نہیں کترائے گا۔

حق دو تحریک میں یہ جملہ اتنا زبان زد عام ہوا کہ میڈیا، سیاسی دفاتر، ہوٹل، تعلیمی اداروں سمیت ہر جگہ یہ جملہ ناصرف سنا گیا بلکہ یہ مولانا ہدایت الرحمٰن اور اس کی تحریک کے پاپولر نیریٹیو کی صورت میں تحریک کو ہوا دینے لگا۔ یہ رائے عامہ بن گیا اور عوام کے دل میں اس عمل پر اتنی نفرت تھی کہ یہی نفرت تحریک کے لیے آکسیجن کی مانند بن گئی۔ عوام اسی عمل سے چھٹکارا چاہ رہے تھے اور اب اسی چھاؤنی کو طول دے کر سرحد کی لکیر کھینچی جا رہی ہے۔

سال گزر گئے، شاید ہی گوادر کے لوگوں نے اہلکاروں کے رویوں میں نرمی محسوس کی لیکن چونکہ یہ سب کچھ ایک پلاننگ کی صورت میں عمل پذیر ہو رہا تھا اسی لیے اس کی ساخت کو کھوکھلا کبھی نہیں ہونے دیا گیا۔

آپ گوادر کو جو کہیں، ریاستی میڈیا، ریاستی بیانیے کے تحت اسے کسی بھی زاویے کی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرے، کرایے کے سیاح و میڈیا انفلوئنسرز گوادر کا جو بھی رنگ دنیا کو دکھائیں لیکن گوادر بلوچ کے لیے چھاؤنی ہی رہا ہے، تاہم فزیکل چھاؤنی شاید آنکھوں کے لیے نئی بات ہو۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پرویز ہود بھائی کے لیے گوادر کچھ سال پہلے ہی چھاؤنی تھا۔ ہود بھائی کا ذکر اس لیے کیونکہ ہود بھائی پاپولر ریاستی بیانیے کی کوکھ سے نکل کر گوادر دیکھ کر اُسے بلوچ بیانیے میں دنیا کو بتانے والے ناپید لوگوں میں ہی شمار ہوتے ہیں ورنہ جنہیں آپ سیاح کہتے ہیں وہ اترتے ہی ایئرپورٹ پر ہیں اور جاتے ہیں ریاستی بیانیے کے مرکز پانچ کلومیٹر کی کشادہ سڑک میرین ڈرائیو اور رہائش کرتے ہیں پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں۔ انہیں نہ کبھی فاضل چوک جانے کی زحمت ہوئی اور نا ہی سیاحتی پولیس نے انہیں بلوچ کا گوادر انہیں دکھانا گوارا کیا۔ یہ سب بھی کنٹرولڈ پلاننگ ہے۔ اس کے پیچھے ایک ریاستی تصویر ہے اور دوسری طرف وینٹی لیٹر پر سانس لیتا بلوچ کا آرٹ جو کبھی سیلاب سے مٹتا ہے تو کبھی بوٹ والوں کے تشدد سے رنگ آلود ہوتا ہے۔

بحرِ بلوچ جسے بحرِ عرب ہی سمجھا جاتا ہے اس کے کنارے پر آباد شہر بلوچ کے لیے زمینی و سمندری چھاؤنی ہی ہے۔ سمندر میں بلوچ ماہی گیر کو ٹرالر مافیا کی بندوق کا سامنا ہے اور خشکی پر اُسے وردی پہنے فوجی کی ذلت کا سامنا ہے۔ اس پریشان حال، نیم زندہ انسان کو آپ باڑ لگا کر جیل کر دیں یا سمندر میں اس کے روزگار کو آبادکار ٹرالر مافیا کے ذریعے نقصان پہنچائیں۔ وہ اپنی اجیرن زندگی گزار تو رہا ہے لیکن اس کی جینے کی خواہش دم توڑ رہی ہے۔ ریاست نہ بلوچ کے رزق و عزت کو خدا کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور نا ہی اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس بیچ بلوچ کا رزق و عزت چین کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے اسے جہاں بھی گھمائے۔ ریاست تو محض گوادر پر لگائے گئے بلین ڈالر ہاتھ سے جانے نہ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

نیم زندہ انسان جو پہلے ہی آپ کی آشیرباد سے زندگی گزار رہا ہے اُسے اگر باڑ میں بند نہ کریں تو کیا برا ہو گا۔ زندگی بھلے جینے نہ دیں، کم از کم گزارنے تو دیں۔

ہنوز ریاست نے سرکاری اعلان نہیں کیا ہے اسی لیے ابھی تک ہر کوئی شکوک و شبہات میں اپنا نقطہ نطر پیش کر رہا ہے۔ اعلان نہ کرنے کا میرا مطلب زمینی حقائق سے دستبرداری بھی نہیں کیونکہ گوادر کے باسی صبح صادق کی شروعات انہی باڑوں کے ترقیاتی کاموں سے کرتے ہیں۔ کم از کم ہم فرانس کی الجزائر میں باڑ، امریکہ کی ویت نام میں باڑ کو تاریخی حوالے سے گوادر میں فٹ کر کے اسے نوآبادیاتی منصوبے کی کیٹیگری میں شامل نہ کریں، وگرنہ اہل گوادر چھاؤنی میں زندہ رہ کر نہ جانے ریاستی انتظامی ڈھانچے میں کن کن زاویوں میں پرکھ کر کون سی قالب میں جانچ کر اپنی زندگی پر اپلائی کرتا رہتا ہے۔

یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔