عالمی سامراجی بھیڑیے کے منہ کو خون لگ چکا ہے

عالمی سامراجی بھیڑیے کے منہ کو خون لگ چکا ہے
ایران کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کے بعد ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کل کو مجھے بھی مارنے کے لئے امریکہ ڈرون بھیج دے، وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک بیرونی خطرات کے خلاف ایک ہو جائیں۔

یاد رہے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کے ساتھ ترکی کے وزیراعظم نے بھی سخت مذمتی بیان جاری کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طیّب اردگان بھی امریکی ڈرون کے ریڈار پر آ سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہادر وزیراعظم عمران خان نے تاحال ایرانی جنرل کی ہلاکت پر ایک مذمتی بیان بھی جاری کرنے کی ہمت نہیں کر سکے جبکہ مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف قومی اسمبلی میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی پُرزور مذمت کر کے وزیراعظم کو شرم اور حیا دلانے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہو گئے۔

ملائشیا نے چند ہفتے قبل کوالالمپور میں مسلم طاقتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس سربراہ اجلاس میں تریپن مسلم ممالک کے سربراہان ریاست نے شرکت ہی نہیں کی یا یوں کہہ لیں کہ یہ سربراہ اجلاس انھیں اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام رہا۔ اس سمٹ میں تین نمایاں ممالک ایران، ترکی اور قطر کے سربراہان ریاست شریک تھے جبکہ ہمارے وزیراعظم جو مہاتیر محمد کو اپنا آئیڈیل گردانتے تھے، صرف ایک فون کال سننے کے بعد اپنے طے شدہ دورے پر جانے سے انکاری ہو گئے تھے۔ یہ ہے ہمارے وزیراعظم کی بہادری اور قومی غیرت کی ایک جھلک۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ کئی برسوں سے ایران سخت ترین معاشی پابندیوں کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود امریکی سامراج کو مسلسل للکارتا رہا ہے۔ وقت آنے پر جہاں ایرانی حکمرانوں نے یہ ثابت کیا کہ ان کی پوری قوم آج بھی سامراج کے خلاف پوری یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ کھڑی ہے تو دوسری جانب یہ بھی ثابت کیا کہ اگر ’’نیشنل ازم‘‘ موجود ہو تو بڑے سے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنا بھی بے حد آسان ہو کر رہ جاتا ہے۔

ایرانی قوم پرستی کی جیتی جاگتی مثال جنرل قاسم سلیمانی کی میت کی ایران آمد پر لاکھوں کی تعداد میں ایرانی عوام کی جانب سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے، جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بدترین معاشی پابندیوں کے باوجود ایران کی جانب سے پاکستان کو مختلف مواقع پر کئی منصوبوں کی پیشکش کی گئی، کئی منصوبے مکمل ہو کر پاکستان کو فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جو امریکہ کے کہنے پر تعطل کا شکار ہوا ایک بڑی مثال ہے۔

اس ضمن میں ایران بار ہا کہہ چکا ہے کہ وہ گیس پائپ لائن پر کام دوبارہ شروع کرنے کے لئے تیار ہے جہاں یہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایران اب بھی پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مارچ 2018 میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے پاکستان کو چاہ بہار بندرگاہ میں بھی حصہ لینے کی پیشکش کی تھی۔

عمران خان کے چند ماہ قبل ایران کے دورہ میں بھی دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دوطرفہ اور کثیر جہتی معاہدوں کے نفاذ پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا جیسا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ؛ پاکستان اقتصادی کوریڈور۔ علاقائی تعاون میں اضافہ کرنے کے لئے اور ایرانی اور پاکستانی رہنماؤں نے اپنی متعلقہ معیشتوں کو فروغ دینے کے لئے اپنے ممالک کے درمیان رابطے مزید مضبوط کرنے کی اہمیت پر بھی بات کی تھی۔ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمسایہ ملک ایران کے ایک اہم اور سینئر جرنیل کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد جہاں دنیا کے مہذب ممالک اس فعل کو سفاکانہ قرار دے کر مذمت کر رہے ہیں تو دوسری جانب زرا ہمارا ’’کردار‘‘ ملاحظہ فرمایے کہ ہمارے ہاں اس ضمن میں یہ تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں کہ ’’قاسم سلیمانی عراق میں کیا کر رہے تھے؟‘‘، یہ جانے بغیر کہ وہ عراق میں عراقی حکومت کی دعوت پر سرکاری دورے پر تھے، ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے یہ ہے ہمارا معذرت خوانہ رویہ، جبکہ اب تو خود عراقی حکومت نے امریکی افواج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا ہے کیونکہ عراقی حکمران بھی جانتے ہیں کہ امریکہ وہ بھیڑیا ہے جو اب باری باری تمام بیلوں کو ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور ان کا اپنا نمبر بھی کسی وقت آ سکتا ہے۔

ہم چونکہ بہت دور اندیش، عقلمند اور دانا قوم واقع ہوئے ہیں اس لئے امریکی بھیڑیے کا لقمہ بننے سے بچنے کے لیے خاموشی کی چادر اوڑھے لیٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ ماہ سے محصور کشمیریوں کے حق میں حکومتی سطح پر ایک آدھ سخت بیان بھی نہیں دیا گیا بلکہ الٹا آزادکشمیر کو بچانے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ ہمیں غیرت کی زندگی گزارنے کے لیے کم از کم اپنے ہمسائے ایرانیوں سے ہی سبق حاصل کر لینا چاہیے جن کے رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے کل ہی امریکہ کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ ’’امریکی اڈوں پر میزائل حملے کر کے سلیمانی کے قتل کا بدلہ لے کر امریکا کے منہ پر تھپڑ مارا ہے‘‘ یہی نہیں بلکہ چودہ جولائی سنہ دو ہزار پندرہ کے ایٹمی معاہدہ کو بھی جوتی کی نوک پر دکھ دیا ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی باضابطہ کہہ دیا ہے کہ ’’اگر ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس معاہدے میں ہمارے فائدے کی کوئی بات نہیں ہے تو ہم اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر دیں گے اور ہمیں اس سلسلے میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ دشمن کو جواب دینے کا ایسا طرزِ عمل ہمیشہ غیور اقوام کا ہی ہوتا ہے کہ جن کے ایک جنرل کے قتل سے پوری دنیا ہل کر رہ جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے سی ون تیس جہاز میں جب درجنوں فوجی افسران اپنے کمانڈر کے ساتھ ایک عالمی سازش کا نشانہ بنتے ہیں، جس سازش کی بو سے سبھی واقف بھی ہیں، لیکن عالم میں پن ڈراپ سائلنس ہوتا ہے۔ کسی میں نام لینے کی ہمت پیدا نہیں ہوتی۔ گویا ڈالروں کے عوض درد سے بلبلانا بھی منع ہے۔

کئی دہائیوں سے بدترین معاشی پابندیوں کا شکار ملک ایران وقت کی سپر پاور امریکہ کے اڈوں میں گھس کر اسے نشانہ بنا سکتا ہے لیکن ہم اپنی شہ رگ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے کسی عملی اقدام کے بجائے گانا بجا کر اور قوم کو آدھا گھنٹہ کھڑا کروا کر دنیا بھر میں اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ کاش کہ ہماری قومی غیرت اور حمیت جاگ اٹھے۔

دوسری جانب ہمارے حکمرانوں کو ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے مذکورہ بیان کو سنجیدگی سے لینے اور خوابِ غفلت سے جاگنے کی ضرورت ہے۔ بروقت جاگ کر اور علاقائی ممالک کا اگر کھل کر ساتھ نہ دیا گیا تو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اکیلے رہ جانے کی صورت میں ہمیں آسانی سے بھیڑیے کا نوالہ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ عالمی سامراجی بھیڑیے کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور وہ اب دندناتا ہوا پھر رہا ہے۔