وزیراعظم عمران خان کوالا لمپور سمٹ میں شرکت کے لئے ملائشیا جانے کے لئے تیار تھے۔ اس حوالے سے بار بار اعلان بھی کیا جاتا رہا اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اسے اپنی کامیابی سے تعبیر بھی کرتی رہی۔ واضح رہے کہ عمران خان ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے مداح ہیں، ان کے لئے بارہا ستائشی کلمات کہہ چکے ہیں اور اس عزم کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو ملائشیا کی طرز پر ایک جدید معاشی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔
لیکن پھر اچانک خبر آئی کہ وزیراعظم ہنگامی دورے پر سعودی عرب گئے ہیں اور وہاں سے آ کر اعلان کر دیا گیا کہ نہ تو وہ خود ملائشیا جائیں گے اور نہ ہی پاکستان کی اس summit میں کسی بھی قسم کی نمائندگی ہوگی۔
بھارت کے 5 اگست کے فیصلے کے بعد ملائشیا اور ترکی ان چند ممالک میں شامل تھے جنہوں نے کشمیر پر نہ صرف پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی تھی بلکہ بھارتی اقدام کی مذمت بھی کی تھی۔ دوسری جانب خلیجی ممالک نے نہ صرف پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں کوئی بیان جاری کیا، الٹا نریندر مودی کو بلا کر اعلیٰ تمغے اور اعزازات سے نوازا جاتا رہا۔
اب جب کہ اس اقدام سے پاکستان نے ملائشیا کو بھی ناراض کر دیا ہے تو اس سے پاکستان کی سفارتی تنہائی کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے کبھی بھی آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مثالی ہیں اور پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی دہشتگردی کے خلاف سعودی اتحادی فوج کے سربراہ ہیں، بہرحال پاکستان کے لئے دیگر مسلم ممالک سے اپنے تعلقات میں ایک توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مگر یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت ایک آزاد خارجہ پالیسی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور انگریزی کہاوت کے مطابق انتخاب کا موقع بھکاریوں کو میسر نہیں ہوتا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو مشکل وقت میں ہمیشہ معاشی سہارا دیا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ میں کمی کی صورت میں ہمیشہ کی طرح گذشتہ برس بھی سعودی عرب نے دل کھول کر امداد دی تھی اور پاکستان کو deferred payment پر تیل بھی فراہم کیا تھا۔ 27 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں جہاں بھارتیوں کے بعد پاکستانی کمیونٹی سب سے بڑی تعداد میں آباد ہے اور یہ پاکستانی ہر سال تقریباً 7 ارب ڈالر پاکستان واپس بھیجتے ہیں۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک سے بھی پاکستانی ورکر بڑی تعداد میں رقوم پاکستان بھیجتے ہیں اور یہ تمام ممالک سعودی عرب کے سفارتی حلقہ اثر میں آتے ہیں۔ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی وہ ترسیلاتِ زر ہیں جو بیرونِ ممالک کام کرنے والے پاکستانی تارکینِ وطن سالانہ اپنے پیاروں کو بھیجا کرتے ہیں اور کُل 21 ارب ڈالر میں سے تقریباً 10 سے 12 ارب ڈالر سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے پاکستان بھیجے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان 1982 سے ایک دفاعی معاہدہ بھی موجود ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں بھی سعودی عرب نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ تمام زمینی حقائق پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی راہ میں حائل ہیں۔ المختصر پاکستان سعودی احکامات کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے روکنا کیوں چاہتا ہے۔
ترکی اور ملائشیا دو ابھرتی ہوئی مسلم طاقتیں ہیں اور یہ خود کو مسلم دنیا کی قیادت کا اہل سمجھتی ہیں۔ سعودی عرب کی طرح ان ممالک کا مسلم دنیا کی قیادت پر دعوے کا انحصار مقدس مقامات کی حاکمیت اور فرقہ وارانہ مفادات پر نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی و خوشحالی پر ہے۔ یہ ممالک اپنی ثقافت تو دوست ممالک میں مقبول بنانا چاہتے ہیں لیکن سعودی عرب کی طرح ان کی طرف سے آنے والے ثقافتی اثرات فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا نہیں دیتے۔
کوالا لمپور سمٹ میں 52 اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما اور intellectuals شرکت کرنے والے ہیں اور اس سمٹ کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب بہترین دماغ مل کر امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اس سمٹ کی صورت میں Organisation Of Islamic Cooperation یعنی او آئی سی کا ایک متبادل کھڑا کیا جا رہا ہے اور چونکہ او آئی سی پر سعودی اجارہ داری ہے، ایک نیا فورم مسلم امہ کی قیادت پر سعودی دعوے کو چیلنج کر سکتا ہے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم امہ محض ایک myth ہے جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل حقیقت ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور کسی امہ کے لئے کوئی ملک اپنے مفادات کو تیاگنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان کو بھی اس سوچ سے باہر نکلنا ہوگا۔ ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر islamophobia کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ٹی وی چینل اور ایسے دیگر کئی خواب جو ہم نے دیکھ رکھے ہیں، وہ ہمیشہ ان زمینی حقائق اور گروہی و علاقائی مفادات کے تابع ہی رہیں گے۔