آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آتے ہی ملک میں ایک جانب مذہبی طبقے خصوصاً تحریک لبیک نے احتجاج کی کال دے دی اور دوسری جانب لبرلز نے عدالتی فیصلے کی حمایت میں زمین آسمان ایک کر دیٸے۔ یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ ایسے میں عمران خان صاحب نے تقریر فرما دی جسے مذہبی طبقے نے دھمکی کےطور پر لیا۔ اس تقریر نے سوائے مذہبی طبقےکو اشتعال دلانے کے اور کوٸی کام نہ کیا۔ اگر کوٸی دور اندیش خان صاحب کا مشیر ہوتا تو اول ان کو تقریر کرنے سے منع کرتا اور مذاکرات کے لٸے بیک چینل استعمال کرنے کا مشورہ دیتا۔
پھر بھی اگر خان صاحب تقریر کرنے پر بضد ہوتے تو وہ یقیناً ان کی تقریر انتہاٸی مختصر الفاظ میں کچھ یوں لکھتا۔
میرے عزیز ہم وطنوں، جیسا کہ آپ کے علم میں ہے ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک فیصلہ دیا ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے جوہمارا آٸین کہتا ہے کہ عدلیہ کے حکم پر عملدرآمد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لئے ہم عدلیہ کے حکم پر عملدرآمد کے لئے ہر حد تک جاٸیں گے۔ اگر کسی کو فیصلے پر اعتراض ہے تو بجائے احتجاج کا راستہ اپنانے کے وہ ریویو پٹیشن داٸر کرواٸیں اور قانونی راستہ اپناٸیں۔ قانونی آپشن کی موجودگی میں احتجاج کا راستہ اپنانا غیر اخلاقی ہے۔ احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں اگر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی گئی تو ریاست کا ردعمل وہی ہوگا جو ہونا چاہیے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو پاکستان زندہ باد!
ملک کے تمام بڑے علما اور سیاسی علما یا خاموش تھے یا آسیہ کے مخالف کھڑے تھے
وزیراعظم عمران خان کو اس سے زیادہ ایک لفظ بھی نہیں بولنا چاہیے تھا اور دھمکی آمیز رویہ اپنانے کا تو قطعاً کوٸی فاٸدہ نہیں تھا اور نہ ہوا کیونکہ یہ کوٸی سیاسی کارکنان کا مجمع نہیں تھا اور نہ ہی یہ روایتی دہشتگردوں یا انتہا پسندوں کا احتجاج تھا۔ یہ عام لوگوں، جن میں زیادہ تر غریب اور مذہب سے لگاؤ رکھنے والے تھے، کا مجمع تھا جن کو اتنا وقت میسر نہیں ہوتا کہ وہ ہر کیس کی تفصیل میں جاٸیں اور تقلیدی سوچ ہونے کی وجہ سےعلما کی رائے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اور اوپر سے ستم یہ کہ اس کیس میں میڈیا نے یکطرفہ مؤقف کی حمایت کی۔ یکطرفہ مؤقف کو نشر کیا۔ ملک کے تمام بڑے علما اور سیاسی علما یا خاموش تھے یا آسیہ کے مخالف کھڑے تھے۔ ایسے میں آپ، میں، چیف جسٹس، فواد چوہدری یا عمران خان اگر قوم کواسلام سکھانا شروع کریں گے تو ہماری کوٸی نہیں سنے گا۔
https://www.youtube.com/watch?v=BAOj7D5KUbo
مسٸلہ اصل یہ ہے کہ تاثر یہ بن جاتا ہے کہ فیصلہ بیرونی دباؤ پر ہوا
یہ معاملہ مسلمانوں کے دین اور ایمان کا مسٸلہ یوں ہے کہ ہمارے اداروں اور ریاست کی ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہمارے یہاں فیصلے بیرونی دباؤ پر ہوتے ہیں۔ آسیہ اگر بے گناہ ہے تو صرف اس کی رہاٸی مسٸلہ نہیں ہے۔ مسٸلہ اصل یہ ہے کہ تاثر یہ بن جاتا ہے کہ فیصلہ بیرونی دباؤ پر ہوا اور یہ تاثر کچھ تو سیاسی طور پر بنایا جاتا ہے اور کچھ ہماری تاریخ ایسی رہی ہے جس کی وجہ سے اداروں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ اتنا کہ اب خود بخود یہ تاثر بن جاتا ہے کہ فیصلہ بیرونی دباؤ پر ہوا ہوگا۔
اگر اس کی سزا کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں ہو پا رہے، گواہ اور ثبوت اس قابل نہیں کہ اسے سزا دی جا سکے توعدالت کیونکر اور کیسے سزا سنا سکتی ہے؟
اگر سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ دینا تھا تو حکومت کو کچھ وقت پہلے ہی مطلع کر کے رائے عامہ ہموار کر نے کا کہا جا سکتا تھا۔ اس میں کوٸی حرج نہیں تھا اور پھر رائے عامہ ہموار کر نے کے لئے حکومت ملکی اور بین الاقوامی جید علما کا اجلاس بلا کر اس کیس پر تفصیلی بریفنگ کا احتمام کرتی جس میں ان کو یہ سمجھایا جا سکتا تھا کہ بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آسیہ بی بی نے توہین مذہب کی تھی لیکن اگر اس کی سزا کے لئے قانونی تقاضے پورے نہیں ہو پا رہے، گواہ اور ثبوت اس قابل نہیں کہ اسے سزا دی جا سکے توعدالت کیونکر اور کیسے سزا سنا سکتی ہے؟ اور پھر اگر وہ قاٸل ہو جاتے تو ان کے ذریعے عوامی رائے کو فیصلے کے حق میں کیا جا سکتا تھا۔ اوراگر وہ قاٸل نہ ہوتے تو پھر ان کے اعتراضات کو ریویو پٹیشن کے ساتھ منسلک کر کے سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ اس کے بعد جو بھی فیصلہ آتا، کم ازکم مذہبی طبقے میں یہ احساس تو پیدا نہ ہوتا کہ ان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ شاید ایسا کرنے سے عوام کا غم و غصہ کچھ کم ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ہی عوام میں غلط تاثر گیا کہ جیسے آسیہ بی بی کو کسی دباؤ کے تحت رہا کیا جا رہا ہے۔
مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو آسیہ بی بی کی رہاٸی کے فیصلے کے حق میں ہو
جو صورت حال میں نے دیکھی اور اپنے ارد گرد کے جتنے بھی لوگوں سے میں نے اس فیصلے کے بارے میں بات کی مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو آسیہ بی بی کی رہاٸی کے فیصلے کے حق میں ہو، چاہے اسے اس کیس کی پوری معلومات ہوں یا نہیں۔ پھر بھی ہر شخص اس فیصلے کےمخالف ہی دکھاٸی دیا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لئے ہمیں بحیثیت قوم، بحیثیت ریاست اور بحیثیت ریاستی اداروں کے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ریاستی اداروں، بشمول میڈیا اور سول سوساٸٹی، کی بھرپور حمایت کے قوم کی بڑی اکثریت اس فیصلے کے خلاف کھڑی ہوگئی؟ شاید اس کی وجہ ہماری تاریخ ہے جس کے مطابق ایک بھی ادارہ ایسا نہیں جس کی کوئی ساکھ باقی رہی ہو۔
ہمارے پاس دو راستے ہیں
کیا عدالتوں کی تاریخ ایسی ہے کہ ان کے فیصلوں کوآنکھیں بند کر کے مانا جا سکے؟ کیا عدالتوں کو استعمال نہیں کیا جاتا رہا؟ کیا سیاستدانوں کی تاریخ ایسی ہے کہ ان کی بات پر اعتبار کیا جا سکے؟ کیا مالی طور پر محتاج میڈیا پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا کوٸی خاص ایجینڈا نہیں ہوگا؟ کیا پارلیمنٹ اور سینیٹ بھی استعمال نہیں ہوتے رہے؟ کیا فوجی حکمران یا چیف کی بات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو ہم سب مستقل مزاجی سے اپنا طرز عمل درست کر لیں تو ایک لمبے عرصے بعد آہستہ آہستہ اداروں کی ساکھ بحال ہوجائے گی اور دوسرا رستہ یہ ہے کہ ٹروتھ اینڈ ریکنسیلیٸشن کمیشن بنا کر تاریخ کو درست کیا جائے اور سب اپنی اپنی غلطیاں کھلے دل سے تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا راستہ نکالیں وگرنہ داٸرے کا سفر جاری رہے گا۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔