رام مندر اور بابری مسجد کی تاریخ کیا ہے؟

رام مندر اور بابری مسجد کی تاریخ کیا ہے؟



بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔

رام مندر اور بابری مسجد کی تاریخ کیا ہے؟

ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔

ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی۔

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں رام کے بت مسجد میں رکھ دیے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔
ایودھیا

اس کے بعد کے چار عشروں میں کئی مسلمان اور ہندو تنظیمیں اس زمین پر اختیار اور عبادت کے حق کے لیے عدالتوں کا رخ کرتی رہی ہیں۔

لیکن اس تنازع میں شدت 1992 میں اس وقت آئی تھی جب ہندو انتہا پسندوں نے مسجد کو تباہ کر دیا۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مذہبی ہنگاموں میں کم و بیش دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل دو ہندو ججوں نے کہا تھا کہ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اس مقام پر جو عمارت تعمیر کی تھی وہ مسجد نہیں تھی، کیوںکہ ایک مندر کے مقام پر مسجد کی تعمیر 'اسلام کے اصولوں کے خلاف' ہے۔

تاہم بینچ میں شامل مسلمان جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اس مقام پر کسی مندر کو نہیں گرایا گیا تھا، بلکہ مسجد کی تعمیر ایک کھنڈر پر ہوئی تھی۔
مسلمان

بابری مسجد کیسے تباہ کی گئی؟


چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی تنظیموں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر تقریاً ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام پر چڑھائی کر دی۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ ساتھ پرتشدد ہوتا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سےمسجد کی عمارت کو تباہ کرتے رہے۔

اس واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو برخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اور پھر 1993 میں ایک صدارتی حکم کے تحت بابری مسجد کے ارد گرد زمین کا 67.7 ایکڑ رقبہ وفاقی حکومت نے اپنے اختیار میں لے لیا۔

اس کے بعد بابری مسجد کے واقعے کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس میں بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے کئی رہنماؤں سمیت 68 افراد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔