بھارتی سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ

بھارتی سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ محفوظ
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں 40 روز سےجاری عشروں پرانے بابری مسجد کیس کی سماعت آج مکمل ہوگئی، جس کےبعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔

عدالت نے فریقین کو مزید دلائل جمع کرانےکے لیے تین دن کی مہلت بھی دی ہے۔ جس کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ واضح رہے کہ یہ بھارتی سپریم کورٹ کی تاریخ کا طویل ترین زبانی سماعت پر مشتمل کیس ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق توقع ہے کہ سترہ نومبر کو چیف جسٹس رانجن گوگوئی کے عہدے کی مدت کے اختتام سے قبل سپریم کورٹ 17 نومبر سے قبل فیصلہ سنادے۔

چیف جسٹس کے ساتھ بینچ میں جسٹس ایس اے بوڈے، جسٹس ڈی وائی چندراچود, جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر شامل ہیں۔

سپریم کورٹ آف انڈیا 30 ستمبر 2010ء کے الہٰ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کررہی ہے، جس میں الہٰ آباد ہائیکورٹ نے اس متنازع 2.77 ایکڑ جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔

بابری مسجد کیس پر فیصلے کے پیش نظر ایودھیا میں 10 دسمبر تک دفعہ 144 بھی نافذ کی جاچکی ہے۔



بھارت کی سپریم کورٹ نے 18 نومبر سے قبل بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔




بابری مسجد تنازع ہے کیا؟


سولہویں صدی میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ان کے مذہبی رہنما رام جی پیدا ہوئے تھے۔ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ پہلے وہاں مندر تھا جسے مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کی تھی۔

مسلمان اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔

یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد کی اپیل پر بھارت کے شہر ایودھیا میں واقع مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔



بھارت میں انتہا پسند تنظٰموں کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں۔



ثالثی کمیٹی کا قیام

بھارت کی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کے لیے رواں سال مارچ میں فریقین پر مشتمل ثالثی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔

ثالثی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایف ایم آئی کلیف اللہ کے علاوہ ہندو مذہبی رہنما شری روی شنکر اور ایک سینئر وکیل سری رام پانچو کو بھی شامل کیا گیا تھا۔


ثالثی کمیٹی نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔ تاہم چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ریمارکس دیے تھے کہ ثالثی کمیٹی کی رپورٹ نے تنازع کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ ثالثی کمیٹی کے اراکین نے بھی قابل عمل حل پیش کرنے میں ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔