مذاکرات ریاستی شرائط پر ہونگے، ورنہ فوج شدت پسندوں کے خاتمے تک لڑے گی: عسکری ذرائع

مذاکرات ریاستی شرائط پر ہونگے، ورنہ فوج شدت پسندوں کے خاتمے تک لڑے گی: عسکری ذرائع

عسکری ذرائع نے واضح کیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ مذاکرات کا انحصار ریاست کی ریڈ لائنز اور طے کردہ شرائط پر ہو گا جو ٹی ٹی پی کے سامنے رکھی جا چکی ہیں۔


یہ اہم بات ملکی سیکیورٹی صورتحال پر بلائے گئے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ایک اعلیٰ فوجی افسر نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں کہی۔


ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں ، فوج اور معاشرہ دہشتگردی کا شکار رہا ہے لیکن ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ شدت پسندی کو ختم کس طرح کیا جا سکتا ہے اور اس کیلئے بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے۔


بی بی سی کے مطابق پاکستانی فوج کے اس اعلیٰ فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہم معاملے پر بات کی اور کہا کہ ابھی مذاکرات کی شروعات ہے اور یہ کہ ریاست کی جانب سے یہ تعین کیا جا چکا ہے کہ ہماری ریڈ لائنز کیا ہونگی۔


خیال رہے کہ گزشتہ روز پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں پاک فوج کی اعلیٰ عسکری قیادت نے سیاسی قائدین کو تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کیساتھ مذاکرات اور دیگر اہم سیکیورٹی امور پر بریفنگ دی تھی۔


اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس اہم معاملے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کرنے کے اقدام پر شدید تنقید کی تھی۔


بلاول بھٹو زرداری نے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو آن بورڈ نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی اتفاقِ رائے پیدا ہوا، ایسے میں صدرِ مملکت یا وزیرِ خزانہ کون ہوتے ہیں کہ وہ بھیک مانگتے ہوئے ٹی ٹی پی سے بات کریں۔


چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں اتفاقِ رائے کے بغیر اپنے طور پر تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے۔


انہوں نے مزید کہا کہ جس نے ہمارے سپاہیوںم ہماری قومی قیادت اور اے پی ایس کے بچوں کو شہید کیا، یہ کون ہوتے ہیں کہ اپنے طور پر فیصلہ کریں کہ کس سے انگیج کرنا ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جو بھی پالیسی ہو اس کی پارلیمنٹ منظوری دے، وہ اتفاقِ رائے سے بنے۔ وہ پالیسی بہتر پالیسی بھی ہو گی اور اس کی قانونی حیثیت بھی ہو گی۔


دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ایک نجی ٹیلی وژن سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ سیز فائر کا معاہدہ ہو چکا ہے بلکہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ ایسا کوئی بھی معاہدہ پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ ہی ہو گا۔


ان کا کہنا تھا کہ فوج فیصلہ سازی نہیں کر سکتی کیونکہ یہ کام صرف اور صرف حکومت یا پارلیمنٹ کر سکتی ہے، اسی لیے اپوزیشن نے اس بات پر زور دیا کہ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ہی ان مذاکرات پر قومی اتفاق رائے قائم ہو سکے گا۔