Get Alerts

بابا گرو نانک؛ سکھوں کے مذہبی پیشوا یا پنجابی نیشنل ازم کے داعی؟

بابا گرو نانک؛ سکھوں کے مذہبی پیشوا یا پنجابی نیشنل ازم کے داعی؟
پانچ دریاؤں کی دھرتی پنجاب سر سبز کھیتوں اور زرخیز زمین کے لحاظ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی مگر اس سرزمین کی بد قسمتی رہی کہ یہ عرصہ دراز سے بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کا نشانہ بنتی رہی۔ ایشیاء کوچک سے آئے ہوئے آریا اور مغل ہوں یا ترکی کے ترک اور افغانستان کے افغانی، سبھی نے اس سرزمین کو اپنے حملوں کی نظر کیا اور یہاں پر حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ بے پناہ دولت بھی سمیٹی۔ سلطان محمود غزنوی نے 1022 میں پنجاب پر حملہ کر کے یہاں پر موجود شاہی ہندو سلطنت کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کردی۔ اس کے بعد سے پنجاب پر بیرونی حملہ آوروں کی حکومت ہی رہی۔ کم و بیش 777 سال تک پنجاب غیر ملکی حکمرانوں کے تسلط میں رہا جس کا اختتام اس وقت ہوا جب شیر پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ 17 جولائی 1799 کو ایک فاتح کے طور پر لاہورمیں داخل ہوئے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ اس بیرونی تسلط کے دوران پنجاب سے کوئی مزاحمت نہیں آئی۔ مغلوں، افغانیوں اور ترکوں کے خلاف پنجاب کے سپوت سر اٹھاتے رہے۔ شہنشاہ اکبر کے خلاف دلا بھٹی نے بغاوت کی جس کی حمایت کرتے ہوئے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین نے لکھا: "کہے حسین فقیر سائیں دا، تخت نہ ملدے منگے"۔ انفرادی مزاحمت تو ہوتی رہی مگر ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر مختلف خانوں میں بٹے ہوئے پنجاب سے بیرونی تسلط کے خلاف اجتماعی مزاحمت نہ کھڑی ہو سکی جو غیر ملکی حکمرانوں کو پنجاب کا تسلط چھوڑنے پر مجبور کرتی۔ اس دوران پنجاب کے عوام بیرونی تسلط کو اپنی قسمت مان کر جیتے رہے جیسا کہ وارث شاہ نے افغان حملہ آور احمد شاہ ابدالی کی پنجاب کی لوٹ مار کے بارے میں کہا تھا: "کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا"۔ وارث شاہ کا مطلب تھا کہ ہمارے پاس وہی سامان بچنا ہے جو ہم نے کھا لینا ہے اور پہن لینا ہے باقی جو کچھ بھی ہوا وہ احمد شاہ لوٹ کر لے جائے گا۔

مگر اس بیرونی تسلط کے دور میں ایک ایسا مکتبہ فکر بھی تھا جو پنجاب کی دھرتی کی زرخیزی سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا۔ وہ اپنی تعلیمات اور کلام کے ذریعے سے مسلسل کوشش کرتے رہے کہ پنجاب کے سورماؤں کو جگا کر اس دھرتی پہ پنجاب کی اپنی حکومت قائم کی جائے۔ اس مکتبہ فکر میں سب سے نمایاں صوفی شاعر تھے جہنوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جہاں پر بیرونی حملہ آوروں کے مظالم اور زیادتیوں کو اجاگر کیا، وہیں پنجاب کے عوام کو غلامی کا طوق اتار دینے کا درس بھی دیا۔ ان پنجابی صوفی شاعروں کا باقاعدہ سلسلہ بابا فرید سے شروع ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پنجابی نیشنل ازم کی پہلی اینٹ بابا فرید نے رکھی تھی۔ ان کے بعد مختلف ادوار میں بابا گرو نانک، گرو انگد، گرو امرداس، گرو رام داس، بابا شاہ حسین، سلطان باہو، گرو تیغ بہادر، صالح محمد سفوری، گرو گوبند سنگھ، بلھے شاہ اور وارث شاہ نے اپنے صوفیانہ کلام کے ذریعے مختلف طبقوں میں تقسیم پنجابی معاشرے کو آپسی طبقاتی اختلاف بھلا کر پنجاب کے امن اور محبت کے رنگ میں مل جل کر رہنے کا درس دیا۔ ان تعلیمات نے آہستہ آہستہ پنجابی نیشنل ازم کے پیغام کو آگے پہنچایا اور پنجاب کے لوگوں کو باور کروانے میں کامیاب ہوئیں کہ اگر وہ ذات اور مذہب سے بالاتر ہو کر اکٹھے ہو جائیں گے تو بیرونی تسلط سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔

ان صوفی شاعروں میں سب سے نمایاں نام بابا گرو نانک سرکار کا ہے جنہوں نے پنجاب کی دھرتی کے رہنے والوں کو ذات پات اور مذہب کی تقسیم سے بلند ہو کر پنجابی قومیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے پنجاب کے تمام بڑے مذاہب کا مطالعہ کیا اور ان مذاہب کے درمیان مشترک اقدار کو اپنے اسلوب کا ذریعہ بنایا۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا کہ جب تک پنجاب کے مسلمان پنجابی نیشنل ازم کا ساتھ نہیں دیں گے اس وقت تک پنجاب کو آزاد کروانے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ وہ اس لیے کہ ایک تو پنجاب میں مسلمان ایک واضح اکثریت میں تھے اور دوسرا پنجاب پر حکومت غیر ملکی مسلمانوں کی تھی۔ یہ پنجاب کے مسلمانوں کے لیے انتہائی مشکل تھا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کے خلاف اپنے علاقائی لوگوں کی حمایت کریں۔ مگر بابا گرو نانک اس مشن کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیارتھے۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے سب سے مقدس فریضے حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ بابا گرو نانک کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا جب تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) کے ایک مسلمان پنجابی زمیندار رائے بلار بھٹی نے بابا جی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کو 18500 ایکڑ زمین وقف کردی۔ بابا جی کی تبلیغ کے جس وصف نے پنجابی مسلمانوں کو زیادہ متاثر کیا وہ ان کی توحید پرستی تھی۔ بابا جی کی تعلیمات ہی کا اثر تھا کہ جب امرتسر میں گولڈن ٹیمپل بنانے کا ارادہ کیا گیا تو اس کا سنگ بنیاد لاہور کے مشہور صوفی شاعر حضرت میاں میر نے رکھا۔

بابا جی نے ایک دور اندیش سیاسی رہنما کی طرح اس ضرورت کو محسوس کیا کہ پنجاب کو اپنی قومی شناخت بنانے کے لیے ایک طویل اور کٹھن جنگ لڑنی پڑے گی۔ بابا جی کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ طویل جنگ کے لیے بلند جذبے اور ایمان کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اکثر ایک مربوط اور مضبوط مسلک اور دین کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ بابا جی نے باقاعدہ پنجابی دین کی بنیاد رکھی جو آج دنیا میں سکھ ازم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سکھ ازم کی مقدس کتاب گرو گرنتھ ہے جس کا آغاز بابا جی کی تعلیمات سے ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد آنے والے 12 گرو اس میں اضافہ کرتے گئے۔ اس کتاب کا آغاز بابا جی کے ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے: "ایک ہی خدا ہے جو اس کائنات کی اکلوتی دائمی سچائی ہے جو کسی سے ڈرتا نہیں ہے، جو کسی سے نفرت نہیں کرتا، جو کبھی نہ ختم ہونے والا ہے، جو کسی جسم کے بغیر ہے، جو زندگی اور موت سے بلند تر ہے"۔

اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ پنجابیوں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ مغل دور میں پنجابیوں کو شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑا مگر پنجاب کے گرو اور عوام ان مظالم کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ دلا بھٹی جیسے سورماؤں نے اپنی دھرتی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ اس کے ساتھ شاہ حسین جیسے درویشوں نے اپنے کلام سے دلا بھٹی جیسے حریت پسندوں کو مضبوط کیا۔ پنجابی نیشنل ازم کی یہ تحریک مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جب پنجاب کی فوج 1799 میں لاہور میں داخل ہو رہی تھی۔ پنجاب کی یلغار لاہور سے لداخ اور اٹک سے کابل تک سنائی دے رہی تھی۔ گرو نانک کے مریدوں اور پنجاب کے سپوتوں نے مغرب میں خیبر پاس تک، شمال میں کشمیر، گلگت اور لداخ تک، جنوب میں سندھ تک اور مشرق میں تبت تک ایک عظیم الشان حکومت قائم کی جس کی بنیاد اور پہچان مذہب نہیں بلکہ انسانیت تھی۔ پنجاب جس کو ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کے سامنے کمزور پڑ جانے والی قوم کے طعنے ملتے تھے اس نے پنجابی جھنڈے تلے جمع ہو کر اس افسانے کو بدل کر رکھ دیا اور ثابت کر دیا کہ اگر بابا گرو نانک جیسے عظیم لیڈر ہوں جو دھرتی کے تمام باسیوں کو طبقاتی تقسیم سے نکال سکیں تو کوئی قوم بھی غلام نہیں رہ سکتی۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔