دہشت گردوں کی مالی معاونت کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟

فنڈنگ کرنے والے افراد کا کھوج کیوں نہیں لگایا جاتا؟ فلاحی کام کرنے والی تنظیموں پر نظر کیوں نہیں رکھی جاتی، جبکہ بہت سے شدت پسند گروہ بھی ایسی تنظیمیں رکھتے ہیں؟ دہشت گرد انتہائی جدید اسلحہ کہاں سے خریدتے ہیں اور انہیں اس کا استعمال کون سکھاتا ہے؟

دہشت گردوں کی مالی معاونت کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟

دہشت گردی کی اصطلاح کی ایک قابل قبول تشریح 'سیاسی مقاصد کے لیے تشدد کا استعمال' بھی ہے۔ قومی اور عالمی سطح پر اداروں کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسے تقویت دینے کے لیے فراہم کی جانے والی مالی معاونت کو کیسے روکا جائے؟ دہشت گردی کے لیے مالی معاونت قانونی مالیاتی نظام سے مربوط ہے، اس لیے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیے بغیر انتہا پسندی، دہشت گردی اور تشدد پسندی، جن کی وجہ سے موجودہ جمہوری، سیاسی اور آئینی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں، کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکتا۔ اس سیاسی اور آئینی نظام کو انسان نے بہت طویل جدوجہد اور تجربات کے بعد ترقی دی ہے، اس لیے اس کا تباہی سے دوچار ہونا انسانیت کا عظیم سانحہ ہوگا۔

کالے دھن کو سفید کرنے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی غیر قانونی سرگرمی شامل ہوتی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کی جانے والی رقوم 'قانونی' ذرائع سے بھی آتی ہیں۔ انہیں فلاحی تنظیموں اور جماعتوں کے نام سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کوئی قانونی نظام ایسی تنظیموں کو عطیات دینے سے منع نہیں کرتا۔ اس سے دہشت گردی کے لیے فراہم کیے جانے والے فنڈز کا کھوج لگانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کے لیے فراہم کی جانے والی رقوم کا انفرادی حجم بھی عام طور پر اتنا کم رکھا جاتا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے لئے مقرر کردہ حد کی اطلاع دینے کے زمرے میں نہیں آتیں۔

ان ممالک، جو زیادہ تر دہشت گردی کا شکار ہیں، میں منی لانڈرنگ روکنے کے ذرائع زیادہ مؤثر اور منظم نہیں، اس لیے دہشت گرد گروہوں کو فراہم کی جانے والی رقوم کا آسانی کے ساتھ سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ ضروری ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ادارے ایسی فنڈنگ کا سراغ لگانے کے لیے ان ممالک کی مدد کریں۔

دہشت گردی اور منی لانڈرنگ، دونوں کی وجہ سے عالمی امن اور سکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاسی اور مالیاتی نظام بھی تباہ ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں برائیاں دنیا میں شروع سے ہی موجود رہی ہیں، لیکن نائن الیون کے بعد ان میں بے انتہا اضافہ اور شدت دیکھنے میں آئی۔ عالمی برادری بہت کوشش کر رہی ہے کہ ان کے آگے بند باندھا جا سکے، لیکن تاحال کسی بڑی کامیابی کا دعویٰ نہیں کیا جا سکا۔

دہشت گردوں کے حامیوں کا دائرہ اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ ان کی طرف سے آنے والی رقوم کا کھوج لگانا مشکل ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا ہے، انتہا پسند فلاحی اداروں کی آڑ میں رقوم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا زیر زمین نیٹ ورک بھی ہے۔ وہ جرائم، جیسا کہ منشیات فروشی، جسم فروشی، اسلحہ فروشی اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے رقوم حاصل کرتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب تک یہ ذرائع بند نہیں کر دیے جاتے، دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

امریکہ اور اس کے اتحادی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے تھک چکے۔ اب جبکہ امریکی افغانستان سے انخلا کر چکے، وہ حتمی کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ طالبان کی کابل میں حکومت کو دو سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ 22 سال کی طویل جنگ کرنے کے بعد امریکہ اوراس کے مغربی حلیف، جس انتہا پسندی اور دہشت گردی کو تباہ کرنے آئے تھے، نہ صرف ان کے سامنے سر جھکا کر واپس چلے گئے، بلکہ بہت سا اسلحہ اور ساز و سامان بھی ان کے حوالے کر گئے، جو اب پاکستان کے خلاف پاکستان تحریک طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے استعمال ہو رہا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ، طالبان، داعش اور دوسری بہت سی دہشت گرد تنظیموں کی طرح، بہت مؤثر فنڈنگ سسٹم رکھتی ہے۔ ان کی فنڈنگ کے مراکز نہ صرف افغانستان، پاکستان، عراق، شام اور کچھ عرب ممالک بلکہ یورپ، افریقہ ، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں بھی موجود ہیں۔ جس عرصہ میں امریکی اور ایساف فورسز ان کے خلاف فائر پاور کا مظاہرہ کرتی تھیں، انہیں ملنے والی رقوم کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ کاوش دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔ اس ضمن میں کم از کم کوئی بڑی دعویٰ کبھی بھی سامنے نہیں آیا۔

درحقیقت اس مسئلے کا عالمی انٹیلی جنس اداروں نے اچھی طرح کبھی جائزہ بھی نہیں لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نام نہاد طاقت ور ملک اپنی فائر پاور سے انتہا پسندوں کا خاتمہ کر دیں گے اور پھر ان باتوں کی اہمیت باقی نہیں رہے گی کہ انہیں کون فنڈز فراہم کرتا ہے اور کون نہیں۔ تاہم آج 22 سال بعد بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنی جگہ پر پوری توانائی سے موجود ہے، لیکن امریکی ہمت ہار چکے ہیں۔ چونکہ دہشت گردوں کو ملنے والی رقوم کا راستہ نہیں روکا جا سکا، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنی صفوں میں شامل کر رہے ہیں۔

گذشتہ کچھ عرصے سے القاعدہ اور داعش کے اہداف مغربی ممالک نہیں بلکہ پاکستان، افغانستان، بھارت، شام اور عراق ہیں۔ پاکستان کے اندر تو تحریک طالبان سے لے کر کئی اور درجن سے زائد تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہیں، جن کا ہدف ہمارے عسکری ادارے، پولیس ہی نہیں، بلکہ عام لوگ، بچے اور غیر ملکی شہری، خصوصاً چائنیز، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے کچھ علاقوں کو بھی شدت پسندوں سے خطرات لاحق ہیں۔ اب ان ممالک کو سوچنا ہے کہ اگر وہ دہشت گردی کا تدارک چاہتے ہیں تو انہیں وہ غلطی نہیں دہرانی چاہئیے جس کا ارتکاب امریکہ اور مغربی طاقتوں نے کیا تھا۔ انہیں فائر پاور استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انتہا پسند گروہوں کو کسی بھی طریقے سے ملنے والی رقوم کی روک تھام کرنی ہے۔ اس کے بغیر وہ یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ گروہ اور تنظیمیں کہاں سے فنڈنگ حاصل کرتی ہیں۔

کچھ سوال ایسے ہیں جن کے پوچھے جانے کی ضرورت ہے۔ حکومتیں غیر قانونی ذرائع سے رقوم کی نقل و حمل کو روکنے میں سنجیدہ کیوں نہیں، جبکہ وہ جانتی ہیں کہ اس طرح کی رقوم انتہا پسندوں کے پاس جاتی ہیں؟ اگر دہشت گرد مروجہ بینکنگ کا نظام استعمال کرتے ہیں، تو حکومت ان رقوم کا کھوج کیوں نہیں لگا سکتی؟ اگر ایسے گروہ حوالہ اور ہنڈی کے ذرائع استعمال کرتے ہیں تو ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو کڑی سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ سب سے اہم سوال، فنڈنگ کرنے والے افراد کا کھوج کیوں نہیں لگایا جاتا؟ فلاحی کام کرنے والی تنظیموں پر نظر کیوں نہیں رکھی جاتی، حالانکہ حکومت جانتی ہے کہ بہت سے شدت پسند گروہ بھی ایسی تنظیمیں رکھتے ہیں؟ حکومت یہ بھی جاننے کی کوشش کرے کہ دہشت گرد انتہائی جدید اسلحہ کہاں سے خریدتے ہیں اور انہیں اس کا استعمال کون سکھاتا ہے؟ یہ سب سوال ہمارے لیے انتہائی اہم ہیں، کیونکہ ہمارے پاس اس جنگ کو لڑنے اور جیتنے کے سوا کوئی آپشن نہیں؟

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں منی لانڈرنگ کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ درحقیقت ہمارے بہت سے سیاسی اور مالیاتی مسائل کی وجہ بھی ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ ہی ہے۔

عوام جانتے ہیں کہ اس جنگ کو جیتنے کے دعوے کرنے کے علاوہ اس ضمن میں کیا کچھ کیا گیا ہے؟ اس ضمن میں سول حکومتوں کو قانون سازی کے لئے مخالف جماعتوں کا تعاون بھی درکار نہیں تھا، کیونکہ اس کے پاس منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 موجود تھا، تاہم اس پر کبھی مؤثر طور پر عمل نہیں کیا گیا۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ بنک مشکوک رقوم کی منتقلی کی رپورٹ کیوں نہیں کرتے حالانکہ منی لانڈرنگ ایکٹ کا آرٹیکل 7 اور منشیات کے خلاف قانون کا سیکشن 67 انہیں اس بات کا پابند کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو مغربی طاقتوں نے کی تھی۔ تاہم ہمارے پاس شکست کی آپشن نہیں ہے، امریکہ کے پاس تھی، انہوں نے منہ موڑ لیا اور یہاں سے چلے گئے۔ ہم کہاں جائیں گے؟

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔