'فکر میں تضاد کے باوجود اقبال نے ہمیشہ جدیدیت اور عقلیت پسندی کی حمایت کی'

زندگی کے بیش تر حصے میں علامہ اقبال اسلامی جدیدیت سے متعلق اپنی سوچ پر کاربند رہے ورنہ بطور شاعر ان کا نکتہ نظر تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جس اسلامی نظریے کی بنیاد پر پاکستان تخلیق ہوا اسے ہم چھوڑ چکے ہیں اور اب ہم نے کوئی اور ہی اسلامی نظریہ پکڑ رکھا ہے اور یہی ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

'فکر میں تضاد کے باوجود اقبال نے ہمیشہ جدیدیت اور عقلیت پسندی کی حمایت کی'

معروف تاریخ دان اور پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش پر نیا دور ٹی وی کے خصوصی شو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اقبال تقلید کے سخت خلاف تھے، ان کا یقین تھا کہ اسلام ایک عقلی مذہب ہے اور اس کے قوانین کے تحت ہم ترقی کی طرف جا سکتے ہیں۔ قائد اعظم کے نام خط میں انہوں نے لکھا کہ جواہر لعل نہرو کی سوشلزم مسلمانوں کو سمجھ نہیں آئے گی، اسلام کے اندر انصاف کا ایک پورا نظام ہے اور شریعت کو لاگو کرتے ہوئے ہم سماجی اور معاشری برابری پر مبنی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔

تاریخ دان اور استاد ڈاکٹر یعقوب بنگش کا کہنا تھا کہ پاکستان میں علامہ اقبال کی شخصیت کا محض ایک ہی پہلو دکھایا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا جبکہ ان کی شخصیت کی باقی ساری خصوصیات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ وکیل تھے، شاعر تھے، فلسفی تھے اور سیاست دان تھے؛ یہ چار زاویے ہیں جن سے علامہ اقبال کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر اشتیاق نے بتایا کہ 1937 میں جناح نے جب یونینسٹ پارٹی کے سردار سکندر حیات خان کے ساتھ معاہدہ کیا تو علامہ اقبال نے اس کی مخالفت کی تھی۔ شروع میں وہ پکے نیشنلسٹ تھے، ان کی نظم 'سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا' آج بھی بھارت کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یورپ سے واپسی کے بعد ان کے نظریات میں تبدیلی آ گئی جس کے بعد انہوں نے کہا کہ نیشنل ازم جغرافیائی حدود کی بنیاد پر نہیں استوار ہوتی بلکہ یہ ایمان اور نظریے پر کھڑی ہوتی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی سیکولر نیشنل ازم کو رد کر کے انہوں نے کہا کہ نیشنل ازم صرف مذہب کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق علامہ اقبال کی وفات کے بعد قائد اعظم نے بار بار یہ کہا کہ پاکستان بنانے کے لیے انہیں سب سے زیادہ انسپائر اقبال نے کیا تھا۔ اقبال کی عظمت کا انکار کیے بغیر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اقبال کی سوچ میں کچھ مسائل تھے اور ان کی شاعری کا ایک حصہ جمہوریت مخالف بھی ہے۔ اس کے علاوہ 1930 میں اقبال نے جس مسلم ریاست کا خیال پیش کیا وہ محض 23 فیصد مسلم آبادی پر مبنی ہو سکتی تھی جبکہ اس میں بنگال کے مسلمانوں کو شامل کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان میں مولویوں کی دقیانوسی سوچ کے مطابق اقبال کی فکر کو توڑ مروڑ کر چورن سا بنا لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر یعقوب بنگش کا کہنا تھا کہ زندگی کے بیش تر حصے میں علامہ اقبال اسلامی جدیدیت سے متعلق اپنی سوچ پر کاربند رہے ورنہ بطور شاعر ان کا نکتہ نظر تبدیل ہوتا رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید مذہب کے طور پر اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ جس اسلامی نظریے کی بنیاد پر پاکستان تخلیق ہوا اسے ہم چھوڑ چکے ہیں اور اب ہم نے کوئی اور ہی اسلامی نظریہ پکڑ رکھا ہے اور یہی ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا علامہ اقبال ایک جانب جغرافیائی بنیاد پر نیشنل ازم کی نفی کرتے ہیں جبکہ 1930 کے خطبے میں وہ اسلامی نیشنل ازم بھی چاہتے ہیں اور بھارت کے اندر ہی مسلم انڈیا بھی بنانے کا خیال پیش کرتے ہیں۔ ان کی سوچ میں تضادات ہیں مگر وہ ہمیشہ عقلیت پسندی کے مبلغ رہے، جدیدیت کے قائل رہے اور تقلید کے خلاف رہے۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ اقبال کی سوچ میں ہم آہنگی ہو، وہ جس زمانے میں سوچ رہے تھے اس زمانے کو بھی جواب دے رہے تھے۔

میربان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔