عدالت نے رانا ثناءاللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع کردی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بریگیڈئیر عارف حکومت کے بدترین سیاسی انتقام کا حصہ بنے ہیں، شہریار آفریدی معافی مانگیں نہیں تو انہیں مرتے وقت واقعی کلمہ نصیب نہیں ہوگا، ان کا جارحانہ انداز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بریگیڈئیر اعجاز بھی ایک بہت پرانی لعنت ہے۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رانا ثناءاللہ نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے کارکن آزادی مارچ کے حوالے سے پارٹی قیادت کو فالو کریں، اطلاع ملی ہے کہ ن لیگ آزادی مارچ میں شرکت کرےگی، کارکن پارٹی کے فیصلے کی روشنی میں آزادی مارچ میں بھر پورشرکت کریں۔
بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ ایک متنازع کردار ہیں اور ان کا ذکر کئی حوالوں سے سامنے آتا رہا رہا ہے، ماضی میں بھی جب رانا ثناء اللہ کو اٹھایا گیا تھا تو اس کا الزام وزیر داخلہ اعجاز شاہ پر لگا تھا۔ ن لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ نے 2018 ء الیکشن سے قبل ن لیگ میں شمولیت کی کوشش کی تھی تاہم انہیں رانا ثنا ء اللہ کی مخالفت کی وجہ سے ن لیگ میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ماضی میں بھی ان پر بہت سے الزامات لگتے رہے ہیں۔
اعجاز شاہ امریکی صحافی ڈینیل پرل کے جنوری 2002 میں اغوا کے بعد اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں آئے کہ جب انھوں نے فروری 2002 کو برطانوی نژاد پاکستانی عسکریت پسند احمد عمر سعید شیخ کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں دھشتگردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایک بار پھر بریگیڈئیر رئٹائرڈ اعجاز شاہ کا نام جنرل حمید گل، پرویز الہی اور ارباب غلام رحیم کے ساتھ بے نظیر کی طرف سے لکھے گئے خط کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنا رہا۔
مختاراں مائی ریپ کیس میں بھی ان پر مختاراں مائی کو دھمکیاں دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اعجازشاہ نے 2002 کے عام انتخابات میں طارق عزیز اور حفیظ اختر رندھاوہ کے ساتھ پنجاب کا منظر نامہ تشکیل دیا تھا۔
سال 2014 کے دھرنے کے دوران اعجاز شاہ کا نام بھی دھرنے کے پس پردہ کرداروں سے رابطوں کے حوالے سے سامنے آیا تھا۔
https://twitter.com/SyedAliHaider13/status/1181885161216057346?s=20
سابق ڈی جی آئی ایس آئی ضیا الدین بٹ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آبار موجودگی کے بارے میں بھی اعجازشاہ مطلع تھے۔
رانا ثناء اللہ کیس:’ویڈیوز محفوظ کرلیں، منشیات برآمدگی کی اسٹوری جھوٹی ہے‘
دوسری جانب لاہور میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں راناثناء اللّٰہ کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران کمرہ عدالت میں رانا ثناء اللّٰہ اور اے این ایف کے وکلاء کے درمیان کافی گرما گرمی رہی ۔ انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں راناثناء اللّٰہ کے خلاف کیس کی سماعت اسپیشل جج سینٹرل خالد بشیر نے کی ۔
کیس کی سماعت کے موقع پر رانا ثناء اللّٰہ کی وکلاء ٹیم کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فوٹیجز محفوظ کر لی گئی ہیں، ہمارا اندیشہ ختم ہوگیا اور بیگ نکالنے اور منشیات برآمد کرنے کی تمام اسٹوری جھوٹی ہے۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں بتایا کہ روٹ ہمارے پہلے مؤقف کو سپورٹ کرتا ہے، رانا ثناء کا مؤقف سی سی ٹی وی ویڈیوز کے بعد سچ ثابت ہوا ہے،باقی تو یہاں جنگل کا قانون ہے۔
سماعت کے دوران وکیل اے این ایف نے رانا ثناء اللہ سمیت دیگر ملزمان پر ہیروئن برآمدگی کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی گئی ۔
پراسیکیوٹر اے این ایف کا عدالت میں کہنا تھا کہ یہ جو کارروائی ہو رہی ہے کس قانون کے تحت کی جا رہی ہے، اگر ڈیوٹی جج ٹرائل سن سکتا ہے تو پھر ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی جائے۔
اے این ایف پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ اس کیس کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے، یہ لوگ باہر جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
وکیل راناثنااللہ فرہاد علی شاہ نے عدالت میں کہا کہ اس ملک میں عدالتیں نہ ہوں تو یہ لوگوں کو کچا کھا جائیں، انہوں نے کہا کہ یہ لوگ بشیر بوٹا گاما نہیں، یہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ملزمان کے وکلا کے موقف پر اے این ایف پراسیکیوٹر نے کمرہ عدالت میں شعر و شاعری کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام، یہ قتل بھی کر دیں توچرچا نہیں ہوتا‘۔
اے این ایف پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ پہلے ملزمان پر فرد جرم لگائی جائے، جس پر رانا ثناءاللہ کے وکلاء اور اینٹی نارکوٹکس پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
وکیل رانا ثنااللہ اعظم نذیر تارڑ نےپراسیکیوٹر اے این ایف سے کہا کہ آپ الفاظ کا استعمال ٹھیک انداز سے کریں، آپ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیف سٹیز لیبارٹری میں ہم گئے اور فوٹیج بھی دیکھ لی،جو سی سی ٹی وی ویڈیو ہم نے دیکھی اس میں ملزم نظر نہیں آ رہا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت کےحکم پر ڈیٹا محفوظ ہوگیا ہے، 3بجکر20 منٹ پر گرفتار کیا گیا ، جبکہ 3 بجکر 50 منٹ پر ڈاکٹرز اسپتال پر گاڑی کی فوٹیج نظر آئی، پہلے ساڑھے 20 کلو، پھر 15 کلوہیروئن بتائی گئی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ پہلے فرد جرم عائد ہو جائے پھر ٹرائل کیا جائے، یہاں پر قانون شکنی ہو رہی ہے ،جس پر وکیل رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایک معصوم آدمی پر ظلم ہو اور آپ کہتے ہیں کہ بولیں بھی نہ۔
اس موقع پر عدالت نے رانا ثناءاللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 18 اکتوبر تک توسیع کر دی اور منشیات کیس میں مدعی عزیز اللہ کو عدالت میں طلب کرلیا گیا۔
وکیل رانا ثنانے عدالت سے استدعا کی کہ مدعی عزیز اللہکا فون ڈیٹا بھی منگوایا جائے۔