’اعجاز شاہ نے مشرف غداری کیس واپس لینے کا کہا تاہم وزیراعظم نے اس تجویز کو پذیرائی نہیں دی‘

معلُوم ہوا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں گُزشتہ ہفتے ہونے والی 2 بڑوں کی مُلاقاتوں میں خان نے”مہان“ سے کہا نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دیئے جانے کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا؟ اب شہبازشریف بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے ، آپ لوگوں کی ڈھیل کے نتائج سامنے ہیں، لہٰذا اب مُجھے اب اپنے طریقے سے کام کرنے دیا جائے، جس پر احسن اقبال کو بالآخر گرفتار کرنے کی "اجازت" دے دی گئی کہ اُنہوں نے ایک سابق آرمی چیف کو سنگین غدّار قرار دیئے جانے اور سزائے موت سُنا دیئے جانے بارے  عدالتی فیصلے کے حق میں اس وقت کُچھ ٹویٹ کئے تھے۔

جب مُسلم لیگ نُون کی باقی پُوری قیادت اس بابت لب سیئے ہوئے تھی، اسی طرح اس بظاہر فوج مُخالِف فیصلے کو زور شور سے سراہنے والے بلاول بھُٹو کو بھی NAB کے ذریعے، فکس کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا لیکن ادھر بلاول بھُٹو کی پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ 27 دسمبر تک اگر بلاول کو گرفتار کیا گیا تو پھر وزیراعظم عمران خان کو سندھ میں نہیں آنے دیا جائے گا جو 27 دسمبر کو کراچی جانے والے ہیں۔


کہا جاتا ہے کہ بلاول ہاؤس میں طے کر لیا گیا ہے کہ 27 دسمبر کو راولپنڈی میں شہید بے نظیر بھُٹو کی برسی کے مرکزی جلسے سے بلاول بھُٹو کے خطاب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری کے جواب میں وزیراعظم کو 27 دسمبر کو اسی طرح کراچی ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا جس طرح 12 مئی کو سندھ حکومت نے اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف کی خواہش اور ہدایت پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو نہیں نکلنے دیا تھا۔

پرویز مُشرف کے خلاف عدالت کا فیصلہ آنے کے فوری بعد ہونے والی خان سے"مہان" کی پہلی ہنگامی مُلاقات میں خان سے گلہ کیا گیا کہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے وزیر داخلہ بننے کے بعد کابینہ اجلاس میں وزیراعظم کو تجویز پیش کی تھی کہ 2013 میں وزارت داخلہ کے ذریعے وفاقی حکومت نے آرٹیکل 6 کے تحت جنرل (ر) پرویز مُشرف کا ٹرائل کرنے کے لئے جو شکایت (استغاثہ) دائر کی تھی، اسے واپس لے لیا جائے لیکن وزیراعظم نے اس کو پذیرائی نہیں دی اور حکومت کی قانُون ٹیم نے اس معاملے میں "مُجرمانہ غفلت" دکھائی جب تک پانی سر تک نہیں آ گیا، جبکہ 2 بڑوں کی حالیہ مُلاقات میں خان نے شکوہ کیا کہ نوازشریف کا گارنٹر بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اور اب لندن میں اہم رابطوں میں مصروف ہے، لہذا اب مریم نواز کو کسی صورت اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہی ہمارے پاس" شریفوں" کی واحد گارنٹی رہ گئی ہے۔

اس کے علاوہ خان نے بعد از مُشرف فیصلہ کی صورتحال کے تناظر میں اس فیصلے کی حمایت میں سامنے آنے والی اپوزیشن شخصیات کے خلاف ایکشن کی "منظُوری" حاصل کی۔


اُدھر لندن میں بتایا جاتا ہے کہ نوازشریف فیملی نے شہباز شریف کو فاصلے پر رکھنا شُرُوع کر دیا ہے اور معاملات کا "کنٹرول " حُسین نواز نے سنبھال لیا ہے، ذرائع بتاتے ہیں کہ حُسین نواز نے پہلے "مریض" کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو نوازشریف کا "ہیلتھ بُلیٹن" جاری کرنے سے روک دیا اور پھر شہبازشریف کو بھی سابق وزیراعظم کی صحت کی صُورتحال بارے میڈیا کو بریف کرنے کی ذمہ داری سے "فارغ" کر دیا اور نواز شریف کی ترجمانی کا مُکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا، یہاں تک کہ ایک 2 بار تو شہباز شریف کو نوازشریف سے ملنے بھی نہیں دیا گیا اور کوئی نہ کوئی عُذر پیش کر کے نوازشریف کے کمرے تک جانے ہی نہیں دیا گیا۔

شریف خاندان کے بعض قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف فیملی چاہتی ہے کہ شہبازشریف پاکستان واپس جائیں تاکہ مریم نواز کی لندن آنے کی راہ ہموار ہو سکے، اس حوالے سے چچا بھتیجے کی آپس میں تلخ کلامی بھی ہُوئی ہے۔ ذرائع کے مُطابق جب حُسین نواز نے چچا سے وطن واپس جانے پر زور دیا تو شہبازشریف نے زچ ہو کر کہا "آپ کو اتنے نوٹس موصول ہوئے ہیں، آپ کیوں نہیں جاتے پاکستان؟ مُجھے واپس بھیج کر مروانا ہے کیا؟ میں میاں صاحب کا گارنٹر ہُوں ، انہیں واپس پاکستان لانے کی عدالت میں گارنٹی دے کر آیا ہُوں، میں میاں صاحب کے بغیر کیسے واپس جا سکتا ہُوں"

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تازہ ترین پیش رفت کے بعد حُسین نواز نے چچا سے کہا اب تو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی گرفتار کر لیا گیا ھے، وہاں پارٹی کی قیادت کے لئے کوئی نہیں رہ گیا ان حالات میں آپ کا وہاں ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔