کرونا کی وبا نے سب کچھ درہم برہم کر دیا ہے۔ خاص طور پر وہ پیشے جہاں کام کے لئے انسانی رابطہ ضروری ہے اس وبا کی وجہ سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ ایسے میں جسم فروشی کا کاروبار ایسا کاروبار ہے جہاں انسانی رابطے کی نوعیت بالکل مختلف ہے اور کرونا کی وبا کے دوران یہ پیشہ شاید ب سے زیادہ خطرناک بن چکا ہے۔
لیکن اس پیشے سے منسلک کروڑوں خواتین اور مردوں کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکس ورکرز اپنے پیشے کو مکمل انداز میں نئے انداز پر استوار کر رہے ہیں۔ اور وہ ہے آن لائن سیکس سروس۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں بازار حسن بند ہو چکے ہیں۔ گاہک براہ راست سیکس ورکرز کے ساتھ سیکس نہیں کرنا چاہتے۔ ہر کسی کو کرونا کا خوف لاحق ہے۔ اس لئے اس وقت آن لائن سیکس سروسز کا استعمال بڑھتا جا رہاہے۔ گاہکوں کی بڑی تعداد براہ راست جنسی مناظر دیکھنے کی رقم ادا کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آن لائن سیکس پلیٹ فارمز پر کرونا سے قبل ٹریفک کے لحاظ سے اب تک 70 فیصد ٹریفک میں اضافہ ہوا ہے۔ سیکس ورکرز خواتین نے اپنے ذاتی آن لائن اکاونٹس بنا لئے ہیں اور وہ اس سے گاہکوں کو انکی ڈیمانڈ کے مطابق سروسز فراہم کر رہی ہیں۔
تاہم یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کئی ملکوں میں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں تو کہیں آن لائن سروسز کی قیمت اتنی نہیں کہ سیکس ورکرز کے اخراجات بھی پورے ہو سکیں۔ ایسے میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں جن کو پرائیویسی کا مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں آن لائن سیکس اور پورن ویب سائٹ کے ڈیٹا بیس سے بڑی تعداد میں خواتین کی ویڈیوز اور تصاویر لیک ہوئیں تھیں۔
کئی خواتین کوئی چارہ نہ ہونے پر کرونا کے خطرے کے باوجود گاہکوں کو براہ راست مل رہی ہیں اور کئی اس کوشش میں موذی مرض کا شکار بھی ہو چکی ہیں۔