لاہور ہائیکورٹ نے حکومت سے ایک ہفتےکے اندر 1947 سے 2001 تک کاتوشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور فریقین کو 17 اپریل کے لئے نوٹس جاری کر دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کےسنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف حکومتی اپیل پر جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس رضا قریشی پر مشتمل عدالت کے 2 رکنی بینچ نےسماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت نے توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کر دیا ہے۔ تاہم اگر تحائف دینے والے ممالک کے نام بھی پبلک کریں گے تو اس سے ملک کے خارجی تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے مزید کہا کہ حکومت نے تمام تفصیلات سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی ہیں لیکن نام ظاہر کرنے کی حد تک ریلیف چاہتے ہیں۔
اس پر جسٹس قریشی نے کہا کہ کیا یہ لوگ بتا رہے ہیں کہ انہیں کیا تحفہ دیا گیا ہے یا نہیں؟
جسٹس بلال نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی ہمیں تحفہ دے تو ہم اسے پبلک کرنے کے بھی پابند ہیں۔
اس پر وکیل نے کہا کہ اگر کوئی ریاست کی نمائندگی کر رہا ہے تو اسے تحفہ ڈکلیئر کرنا چاہیے۔ حکومت ریکارڈ چھپانے کی کوشش نہیں کر رہی لیکن 2002 سے پہلے کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ اور تصدیق شدہ نہیں ہے۔
عدالت نے حکومت سے 1947 سے 2001 تک کاتوشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا،عدالت نے فریقین کو 17اپریل کیلئے نوٹس جاری کردیئے ۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کی 1990 سے 2001 تک تفصیلات پبلک کرنے کے سنگل بینچ کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے جہاں حکومت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ذریعے اپیل دائر کی۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ سنگل بینچ کی جانب سے 1990 سے 2001 تک کے توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات اور تحائف دینے والوں کے نام پبلک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سنگل بینچ کا تحائف دینے والے ممالک کے نام پبلک کرنے کا فیصلہ قانونی طور پر درست نہیں۔
وفاقی حکومت نے استدعا کی کہ سنگل بینچ کا 1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ اور ممالک کے نام پبلک کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ پہلے توشہ خانہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے 1990 سے 2001 تک توشہ خانہ کی تفصیل پبلک کرنے کا حکم دیا تھا .جسٹس عاصم حفیظ نے شہری منیر احمد کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا ۔ 23 مارچ کو جاری کیے گئے عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت حکم کی مصدقہ نقل کے 7 یوم میں توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرے.تحائف کی ملکیت حکومت کے پاس ہوتی ہے.یہ تب تک حکومت کے پاس ہوتے ہیں جب تک انہیں لینے کا طریقہ نہ اختیار کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تحائف کا چھپانا یا اس کی قیمت ادا نہ کرنا غلطی ہے جو خرابی کی رغبت دیتی ہے. توقع کی جاتی ہے کہ جنہوں نے تحائف لیے وہ رضاکارانہ طور پر اسے ڈیکلیئر کریں. ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف فوجداری ایکشن ہو سکتا ہے. کوئی قانون سے بالا تر نہیں اور نہ کسی کو اپنے فائدے کیلئے ریاست کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہے۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تحائف دینے والے کی شناخت کوئی سٹیٹ سیکرٹ نہیں اور نہ ہی مقدس معلومات ہیں.اس کیلئے استثنیٰ مانگنا نو آبادیاتی ذہنیت کے علاوہ کچھ نہیں. صرف توشہ خانہ کی معلومات عوام کے ساتھ شیئر کرنے سے اس کے بین الاقوامی تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔
اس سے قبل 12 مارچ کو وفاقی حکومت کی جانب سے توشہ خانہ کا 2002 سے 2023 کا 466 صفحات پر مشتمل ریکارڈ کیبنٹ ڈویژن کی ویب سائٹ پر جاری کیا تھا۔
وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق 2002 سے توشہ خانہ کے تحائف وصول کرنے والے ریاستی اہلکاروں کی فہرست جاری کر دی ہے۔
توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والوں میں سابق صدور، سابق وزرائے اعظم، وفاقی وزرا اور سرکاری افسران کے نام شامل ہیں۔ کم مالیت کے بیشتر تحائف وصول کنندگان نے قانون کے مطابق بغیر ادائیگی کے ہی رکھ لیے کیونکہ 2022 میں 10 ہزار روپے سے کم مالیت کے تحائف بغیر ادائیگی کے رکھنے کا قانون تھا۔ ، اس کے علاوہ10 ہزار سے 4لاکھ روپے تک کے تحائف پندرہ فیصد رقم کی ادائیگی کے ساتھ رکھنے کی اجازت تھی جبکہ چارلاکھ سے زائد مالیت کے تحائف صرف صدر یا حکومتی سربراہان کو رکھنے کیا اجازت تھی۔
ریکارڈ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کو سال 2018 میں قیمتی تحائف موصول ہوئے۔ ستمبر 2018 میں عمران خان کو 10 کروڑ 9 لاکھ روپے کے قیمتی تحائف موصول ہوئے، جن میں 8 کروڑپچاس لاکھ کی گھڑی تھی جو 18 قیراط سونے کی بنی تھی۔چیئرمین پی ٹی آئی نے ان تحائف کے 2 کروڑ 1 لاکھ 78 ہزارروپے توشہ خانہ میں جمع کرواکرتحائف رکھ لئے تھے۔ستمبر 2018 میں سابق وزیراعظم کے چیف سکیورٹی آفیسر رانا شعیب کو 29 لاکھ روپے کی رولکس گھڑی تحفے میں ملی جبکہ 27 ستمبر 2018 کو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 73 لاکھ روپے مالیت کے تحائف موصول ہوئے جو انہوں نے توشہ خانہ میں رکھوا دیے تھے۔
اس کے علاوہ توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق صدر مملکت عارف علوی کو دسمبر 2018 میں 1 کروڑ 75 لاکھ روپے کی گھڑی ، قرآن پاک اور دیگر تحائف ملے جس میں سے انہوں نے قرآن مجید اپنے پاس رکھا اور دیگر تحائف توشہ خانہ میں جمع کرادیے۔ اسی طرح دسمبر 2018 میں خاتون اول بیگم ثمینہ علوی کو بھی 8 لاکھ روپے مالیت کا ہار اور 51 لاکھ روپے مالیت کا بریسلٹ ملا جو انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کروادیا۔
توشہ خانہ کے جاری کیے گئے ریکارڈ کے مطابق 2دسمبر 2008کو سابق صدرآصف علی زرداری نے پانچ لاکھ مالیت کی گھڑی ادائیگی کرکے خود رکھ لی جبکہ 26 جنوری2009 کو سابق صدرآصف علی زرداری کو 2 بی ایم ڈبلیو گاڑیاں ملیں جن کی مالیت 5 کروڑ 78 اور دو کروڑ 73 لاکھ تھی جبکہ ایک ٹویٹا لیکسز بھی ملی جس کی مالیت 5 کروڑ روپے تھی،آصف زرداری نے یہ تینوں گاڑیاں دو کروڑ دو لاکھ روپے سے زائد ادا کر کے خود رکھ لیں۔
اس کے علاوہ 28 اکتوبر2011 کو آصف زرداری نے 16 لاکھ 15ہزار کے تحائف رکھ لیے جبکہ 11ہ مارچ 2011کو آصف زرداری کوملنے والے تحائف کی مالیت دس لاکھ روپے سے زائد لگائی گئی۔ 13جون 2011کو 16 لاکھ کے مالیتی تحائف ادائیگی کر کے رکھ لئے۔ 15 اگست 2011کو آصف زرداری نے 847,000 روپے کے تحائف خود رکھ لیے۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف کو ملنے والی مرسیڈیز کار کی کل مالیت 4,255,919 روپے لگائی گئی تھی۔ 20 اپریل 2008 کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے تحفہ میں ملنے والی مرسیڈیزکار 636,888 روپے ادا کر کے رکھ لی۔
توشہ خانہ ریکارڈ کے مطابق جولائی 2009ء میں وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے شہباز شریف کو پندرہ جتنے بھی تحائف ملے وہ انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کروادیے۔ دس جون 2010کو سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف نے چالیس ہزار کی پینٹنگز توشہ خانہ میں جمع کروائیں۔