سانحے کے بعد پوری دنیا بالخصوص امریکا و یورپ میں مسلمان دہشت کی علامت بن گئے اور حکومتی مشنریوں نے بے گناہ مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔امریکی مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ان کا ہر قسم کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور رہی سہی جگہوں پر غیر مسلم ان سے خوف زدہ ہر کر الگ ہونے لگ گئے۔ مسلمانوں کا جو تاثر پوری دنیا میں خراب ہوا اس کو درست کرنے میں کافی عرصہ لگا۔
ان اندوہناک ہلاکتوں نے امریکا کو پوری دنیا پر جنگ مسلط کرنے کا بہترین موقع دیا جس کے لیے سب سے پہلے افغانستان نشانہ بنا۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکی سرزمین پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں امریکہ کے صدر جارج بش نے ’دہشت گردی کے خلاف‘ جنگ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد 7 اکتوبر کو افغانستان پر پہلا فضائی حملہ کیا گیا۔ طالبان حکومت نے القاعدہ کے سربراہ اور نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی۔امریکہ کے افغانستان کی سرزمین پر حملے کے بعد طالبان کو جلد ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ طالبان 6 دسمبر 2001 کو دارالحکومت کابل کا کنٹرول ترک کرکے وہاں سے نکل گئے تھے۔
حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا اور نیٹو ممالک نے اپنی افواج افغانستان میں تعینات کرنا شروع کردیں۔
افغانستان حملے کے لیے سب سے زیادہ قربانی کا بکرا پاکستان کو بنایا گیا ۔ اس وقت کے پاکستان کے سربراہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو امریکی حکام نے ایک فون کیا اور افغانستان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین مانگی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ تعاون نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن امریکا کے دہشت گردی کے جنگ کی قیمت پاکستان ادا کر رہا ہے۔
لیکن تاریخ ایسی دھرائی گئی کہ دیکھنے سننے والے دہنگ رہ گئے،29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں تاریخی معاہدہ طے پایا جس میں تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا کی مئی 2021 تک کی مدت دی گئی۔
انخلا کے لیے شرط رکھی گئی کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور سکیورٹی انتظامات کی پابندی کریں گے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ستمبر میں ہوا۔ مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی عبداللہ عبداللہ کرتے رہے۔ اسی دوران افغانستان میں پرتشدد واقعات اور ٹارگٹ کلنگز میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کا الزام طالبان پر عائد کیا گیا۔ پھر یکم مئی کوامریکی اور نیٹو ممالک نے اپنے 9 ہزار 500 فوجیوں کے انخلا کا آغاز کیا، جن میں سے 2 ہزار 500 امریکی تھے۔
مئی میں امریکی فوج نے قندھار ایئربیس کا کنٹرول چھوڑا جبکہ دو جون کو اپنے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام کو افغان حکومت کے حوالے کردیا۔
امریکی صدر جو بائیدن نے اعلان کیا کہ ’نائن الیون حملوں کے 20 سال مکمل ہونے سے پہلے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوتے ہی طالبان نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
6 اگست کو طالبان نے پہلے صوبائی دارالحکومت زارنج پر قبضہ کیا۔ آئندہ چند دنوں قندھار اور ہرات سمیت دیگر اہم شہر بھی طالبان کے قبضے میں آتے گئے۔
31 اگست تک ملک کے شمالی، مغربی اور جنوبی علاقوں پر طالبان کا کنٹرول تھا۔
اسی دوران پینٹاگون کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ کابل کو طالبان کی جانب سے ’فوری خطرے‘ نہیں ہے۔
افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے اور اب وہ ملک کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے اور15 اگست کو جلال آباد پر قبضے کے بعد کابل کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگیا۔ اس وقت تک حکومت کے کنٹرول میں واحد شہر کابل ہی بچا تھا۔اسی دن شام کو صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کی خبریں سامنے آئیں اور طالبان صدارتی محل میں داخل ہوگئے۔ اشرف غنی نے روانہ ہونے کے بعد نامعلوم مقام سے بیان جاری کیا جس میں انہوں نے ملک چھوڑنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے طالبان کو فاتح قرار دیا۔ امریکہ کے افغانستان پر تسلط کے 20 سال بعد طالبان نے ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچنے کے لیے بہت سے علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر گئے اور اس سال کے آغاز سے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے مطابق بدخشاں، قندوز، بلخ، بغلان اور تخار کے وسیع علاقوں پر طالبان کے قبضے کی وجہ سے اندرون ملک مہاجرین کی ایک نئی لہر آ گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق رواں ہفتے کے شروع میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصاویر میں کابل چھوڑنے کے لیے بے تاب افغان شہریوں کو سی-17 طیارے کی طرف بھاگتے اور اس کے ساتھ لپٹتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جس نے 2001 کی تاریخ کو دہرایا، تب امریکہ میں افغان طالبان نے ان کے ہوائی طیاروں کو یرغمال بنا کر انہیں کے ملک پر حملہ کیا تھا اور اب 2021 میں امریکی طیارے اپنے افغان شہریوں کو اسی ملک سے نکالنے کیلئے ہنگامی پروازیں جاری رکھے ہوئے تھے۔ کابل ایئرپورٹ پر افراتفری سی مچی ہوئی تھی ۔ جو افراد جہازوں کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہوئے، وہ دوسرے لوگوں کو اوپر چڑھنے میں مدد کر رہے تھے۔ایئر پورٹ پر متعدد خوفزدہ خاندان اپنے سامان کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کے لیے جمع تھے۔
2001کی پروازوں نے امریکہ پر حملہ کرکے طالبان کی ساخت کو کمزور کیا اور 2021 کی پروازیں انہیں طالبان کی فتح کا منہ بولتا ثبوت ثابت ہوئیں ۔