شک کی کوئی گنجائش نہیں، بلوچ نیشنل آرمی نامی مسلح گروہ کے سرپرست گلزار امام کو زود یا بدیر گرفتار ہونا ہی تھا۔ بس پس پردہ کھیل کے پیش کار ہدایت کار کو وقت کو طول دینا یا کھینچنا مقصود تھا۔ اس کی وجہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مہارت اور معلومات کے حصول کیلئے ہنرمندانہ خفیہ کاری نہیں بلکہ بلوچ سیاسی گروہوں کی اندرونی شکست و ریخت اور کارکنوں کی دل شکستگی ہے۔ درحالیکہ ان گروہوں میں کہیں کہیں توجہ اور شہرت پانے کی ایک بھوک پائی جاتی ہے۔ جس کا اثر کیسا پڑے، یہ کسی کی بلوغت پر منحصر ہے۔ یہ کسی بھی سطح پر ملنے والی توجہ کیلئے اپنے مبینہ عظیم خیالات کو بآسانی بھول جاتے ہیں جبکہ ان کی فکری سوئی اکثر و بیش تر اپنے ہم خیال گروہوں یا افراد کو 'غیر' خیال کرنے پر اٹک جاتی ہے۔ ان کی توجہ طلبگی کی بھوک ایک ایسے ابھرتے فنکار کی گُرسنگی جتنی شدید ہوتی ہے جسے کسی کامیاب فلم میں چھوٹا موٹا رول ملا ہو اور اخبارات و ٹی وی چینلز کی کوریج اس پر نشہ طاری کر دیتی ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے گرفتاری کا اعلان اس وقت ہوا جب خبر متعلقہ لوگوں کیلئے باسی ہو چکی تھی۔ بلوچ سیاست سے شُدبد رکھنے والے بیش تر لوگ ان کی گرفتاری سے واقف تھے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کسی بلوچ رہنما یا کارکن کی اپنے انجام کو پہنچنے کی کہانی کا سنسنی خیز فلمی پلاٹ تیار کیا گیا ہو۔ وہ بھیس بدل کر بھاگتے ہوئے، پُر اسرار حالات میں، کسی گمنام مقام پر جہاں ان کو کوئی نہیں پہچانتا، ناگہاں تعاقب کرنے والے کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
جیش العدل نامی ایک انتہا پسند سُنی تنظیم مغربی بلوچستان (ایران) میں چند سال قبل سرگرم تھی۔ عبدالمالک ریکی جو اس تنظیم کے سربراہ تھے، پاکستانی ٹی وی چینل سماء پر اس کا اردو زبان میں تفصیلی انٹرویو چلایا گیا۔ وہ پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان کے پہاڑوں میں آرام سے رہ رہے تھے۔ وقتاً فوقتاً زاہدان اور زابُل کی شاہراہوں پر مسافر گاڑیوں کو روکتے اور شیعہ عقیدہ کے ماننے والے معصوم افراد کو بیدردی سے قتل کرنے کے جرم کو قابل ستائش شمار کرتے تھے۔
عبدالمالک ریکی کی جیش العدل کی سیریز کی قسطیں زیادہ نہیں تھیں۔ پیش کار و ہدایت کار ان کے ذریعے اپنا پیغام دے کر سپر ہیرو کو عبرتناک انجام تک پہنچانا چاہتے تھے لہٰذا ان کے افسانے کا پلاٹ عجلت میں ترتیب دیا گیا۔ وہ کہیں سے جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ کہیں جا رہے ہوتے ہیں۔ سفر کے درمیان میں ایرانی فضائی حدود پڑتی ہے۔ مخبر یہ خبر حکام تک پہنچا چکے تھے۔ جہاز کے مسافروں میں سے ایک شخص مطلوب تھا۔ جنگی طیارے حرکت میں آتے ہیں۔ مسافر بردار جہاز کے اپنی حدود میں داخل ہوتے ہی اس کا گھیراؤ کرتے ہیں۔ چاروناچار مسافروں کے بوجھ کو لادے جہاز کو بادلوں کی دلکش فضا سے تپتی زمین پر اترنا پڑتا ہے۔ چہروں پر خوف طاری کر دینے والے کالے ماسک پہنے کمانڈوز رن وے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والے ناظرین کو ان کی آنکھیں، ناک اور دہان کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سکرپٹ کے مطابق وہ کسی کو گزند نہیں پہنچاتے۔ ناک کی سیدھ چلتے ہوئے ہلکی داڑھی والے ایک مسافر کو دبوچ لیتے ہیں۔ یہاں ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
خفیہ ادارے اس لئے خفیہ کہلائے جاتے ہیں کہ ان کے جسم میں پائے جانیوالے اعضا پراسرار ہوتے ہیں جہاں ہر فن کا مولا بیٹھا ہوتا ہے۔ ادیبوں کی مانند وہ بھی پلاٹ در پلاٹ، کم و بیش تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں اور نئے نام، تبدیل شدہ حالات اور نئے مقام کے مطابق گرفتاریوں کی کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ عبدالمالک ریکی کے بعد گلزار امام کی گرفتاری کا نیا افسانہ، پرانے پلاٹ کی عمارت کے ملبے پر سننے کو ملتا ہے۔ پہلی کارروائی ایران میں ہوئی، دوسری ترکی میں۔ کہانی کا پلاٹ ایک جیسا تھا۔ کردار اور مقام جداگانہ تھے۔
اسلم رئیسانی کی حکومت میں سید احسان شاہ بلوچستان کے وزیر خزانہ کے علاوہ کابینہ میں ایک بااثر شخصیت بھی تسلیم کئے جاتے تھے۔ وہ مارکسی اکانومی کی اصطلاح میں قومی سرمایہ دار کی تعریف پر پورا اترتے ہیں اور سیاسی بھاؤ تاؤ لگانے میں قابل فہم نگاہ رکھتے ہیں۔ ہر ایک کو بقدرے قد کاٹھ نوازنے اور چلانے کا ہنر جانتے ہیں۔ جب وہ اسلم رئیسانی کی زیر نگرانی وزیر تھے تب آج کی نسبت ان دنوں بلوچ مسلح گروہوں کا زور ابھی اتنا ٹوٹا نہیں تھا۔ ان کے اس زور کی بدولت پارلیمان کی سیاست کرنے والے بلوچستان کے سیاست دانوں کی اسٹیلشمنٹ اچھی بولی دیتی تھی۔ سید احسان شاہ نے ایک نجی بات چیت میں سیاسی مارکیٹ میں طلب و رسد کا معیاری نقشہ کھینچا اور بتایا کہ وہ ہیں تو ہماری بھی قدر کی جاتی ہے۔ اب ایک دہائی گزر چکی ہے۔ حالات کسی ڈرامے کے منظرنامے کی طرح بدل گئے ہیں۔ اس تبدیلی میں طاقت کا توازن بھی بگڑ چکا ہے۔ کچھ گروہ بری طرح تھک چکے ہیں۔ طے شدہ وقت پر کردار کہانی سے غائب کئے جائیں گے۔ ان کرداروں کی پسپائی میں ان کی شہرت اور توجہ طلبگی کی بھوک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ گھر کی خبر اندرون خانہ لڑائی جھگڑے کے بغیر محلہ بھر میں زبان زد نہیں ہوتی۔
جب دیوارِ برلن کی اینٹیں چُنی جا رہی تھیں تو سرخ سپاہی اپنے سامنے کھڑی طاقتوں؛ امریکہ، فرانس اور برطانیہ کو عہد رفتہ کی نشانیاں سمجھتے تھے۔ جیسے ان کا وقت گزر چکا ہو۔ دن گزرتے گئے۔ دیوار کا پیٹ پالنا روز بروز مشکل ہوتا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آہنی دیوار کے پار چارلی چیک پوائنٹ پر کھڑے مغربی دنیا کے سپاہی لاعلم تھے کہ اب اس دیوار کا پیٹ ان کے کارپوریٹ آقا بھر رہے ہیں تاآنکہ اس کی ضرورت ہے۔
گلزار امام اپنے مقررہ وقت پر ہاتھ لگے لہٰذا اس بحث کی کوئی اہمیت نہیں؛ کس نے مخبری کی، کہاں سے پکڑے گئے یا کس وقت گرفتار ہوئے۔ گرفتاری باسی ہو چکی تھی بہرحال اس کو نئی خبر کی بوتل میں انڈیل کر فل سائز پیکنگ میں پیش کیا گیا۔