موسم گرما کی آمد آمد ہے۔ ابھی اپریل 2023 کی شروعات ہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے درجہ حرارت میں اضافے کی پیش گوئی کر دی ہے اور بتایا ہے کہ ابتدائی ایام میں یہ اضافہ 1 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا مگر اپریل کے تیسرے ہفتے تک 3 سے 4 ڈگری ہو جائے گا۔ یوں اپریل میں شہر کا درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔ اسے گرمی کی لہر تو قرار نہیں دیا جا سکتا مگر دن کے اوقات میں سورج کی تپش اور ہوا میں نمی کے تناسب سے انہیں گرم دن ضرور شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیشین گوئی اتنی اچانک بھی نہیں کیونکہ اس سے قبل محکمہ موسمیات نے مارچ کے شروع میں ہی اپریل اور مئی کے دوران درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے اور ہیٹ ویو کے امکانات سے خبردار کر دیا تھا۔
اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں اس سال گرمی کا موسم انتہائی گرم ہو سکتا ہے کیونکہ فروری کے مہینے میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ تھا۔ مگر کیا ہمارے ادارے اور عوام آنے والے موسم گرما کے لیے خود کو تیار کر چکے ہیں؟ کیونکہ یہ وقت حکام، سرکاری اداروں، آفات سے نمٹنے والی تنظیموں اور شہریوں کے لیے یکساں طور پر چوکنا رہنے اور متوقع شدید درجہ حرارت سے خود کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا ہے۔
اگر آج کے شہر کراچی کا موازنہ 20 سال قبل کے شہر سے بھی کریں تو شہر میں تیزی سے گرم ہونے والی آب و ہوا اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یہاں کے درجہ حرارت میں ایک واضح اضافے کا رجحان پیدا ہو چکا ہے۔ کراچی اربن لیب کی تحقیق کے مطابق 1960 کے بعد سے کراچی میں رات کے وقت کے درجہ حرارت میں تقریباً 2.4 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ دن کے وقت کے درجہ حرارت میں 1.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کی 2021 کی تحقیقی دستاویز کے مطابق 1900 کے بعد سے عالمی درجہ حرارت میں اوسط اضافہ 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ رہا اور اس کی نسبت کراچی میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح خاص طور پر زیادہ ہے۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے طویل اور زیادہ شدید گرمیاں ایک عام سی بات ہیں۔
جیسے جیسے عالمی سطح پر درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، شدید گرمی کے مہلک اثرات تیزی سے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ 2015 کے بعد سے اب تک شہر کراچی میں کم و بیش 5 مرتبہ ہیٹ ویوز آئیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
یہ بات قابل غور ہے کہ یہ صرف چند سب سے شدید گرمی کی لہریں ہیں جنہوں نے کراچی کو متاثر کیا ہے۔ 2015 کی ہیٹ ویو میں تو شہر کے اسپتالوں سے لے کر قبرستان تک بھر گئے تھے۔ نہ اسپتالوں میں مریضوں کے لئے جگہ رہی تھی نہ ہی میتیں رکھنے کے لئے سرد خانوں میں۔ شہر کے قبرستانوں کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور عملے کی کمی کے باعث میتیں دفنانے کے انتظار میں رکھی ہوئیں تھیں۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 6000 سے زائد تھی۔ نہ ٹھنڈے پانی کے لئے برف میسر تھی، نہ ہی میتوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے۔ ایک برف کے ٹکڑے کی قیمت 500 روپے تک جا پہنچی تھی۔
یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو آفات سے نمٹنے والی تنظیموں نے بیان کیے جبکہ گرمی کے بہت سے اثرات ایسے بھی ہیں جن کو نہ ادارے اہمیت دیتے ہیں نہ عوام۔ جیسے بڑھتے درجہ حرارت کے سبب متعدی بیماریوں اور دیگر امراض کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور پھر ان بیماریوں میں جو ہلاکتیں ہوتی ہیں انہیں گرمی کی لہر کے اثرات میں شمار نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ویسے ہی گرمی کی لہروں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا اکثر مشکل ہوتا ہے کیونکہ بہت سی اموات کی اطلاع نہیں دی جاتی یا ان اموات کو دیگر وجوہات سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر شدید گرمی اور اس سے جڑے امراض میں ہمارے اسپتالوں سے لے کر قبرستانوں تک ہلاکت کی درست وجہ کا تعین کرنے کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں۔ ہمارے پاس یہ اعداد و شمار تک نہیں کہ 3 کروڑ آبادی والے اس شہر میں کتنے لوگ شدید گرمی کے سبب بیمار پڑتے ہیں۔ پھر دائمی گرمی جو مختلف امراض کو پیچیدہ بنا دیتی ہے اور اس کے باعث اکثر مریضوں کی زندگی کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے مگرادارے اور عوام گرمی کے ان اثرات کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
پھر شہر میں کئی گنجان آباد علاقے ایسے ہیں جہاں صحت کی خدمات اور سہولیات سے متعلق وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں یا وہ جن کے لئے شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے سفر کا دورانیہ گھنٹوں پر محیط ہے تو ایسے لوگ اگر شدید گرمی کے اثرات کا شکار ہو جائیں تو انہیں اسپتال جانے کی مہلت تک نہیں مل پاتی۔ یوں گرمی سے متعلق خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے لے کر شدید گرمی کی لہر تک کے تجربات اور واقعات کو آہستہ آہستہ شروع ہونے والی تباہی کے طور پر دیکھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خاص طور پر روزمرہ کی زندگی، مزدوروں اور کارکنوں کی پیداواری صلاحیت، صحت اور تندرستی پر دائمی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کراچی کی ہوا میں نمی کا تناسب اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے کیونکہ محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت ہوا میں موجود درجہ حرارت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اضافی گرمی کے دباؤ کو بھی سمجھا جائے جو عمومی طور پر مقامی ماحولیاتی حالات یا جسمانی مشقت یا مشقت کی اعلیٰ سطح کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ گرمی کے تناؤ اور گرمی کے انتظام کے کامیاب منصوبے بنا کر ان پر عمل درآمد کیا جائے تو اس کے لئے دائمی گرمی کے ایکسپوژر اور گرمی کے دباؤ کا باریک بینی سے تجزیہ ضروری ہے۔ کیونکہ دائمی گرمی کی نمائش سے آبادی (خاص طور پر کمزور افراد جیسے بوڑھے، بچے اور پہلے سے امراض میں مبتلا افراد) پر مرتب ہوتے منفی اثرات پر توجہ وقت کی ضرورت ہے۔ ان اثرات میں گرمی سے متعلق بیماری کا بڑھتا ہوا خطرہ، سانس اور قلبی حالات کا خراب ہونا، پیداواری صلاحیت میں کمی، معاشی اثرات اور معیار زندگی میں کمی شامل ہیں۔ تاہم پاکستان میں حکام، ادارے اور لوگ آگاہی کی کمی، قلیل مدتی توجہ، وسائل کی رکاوٹوں اور سیاسی ارادوں کے نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کے ان دائمی اثرات پر غور نہیں کرتے۔
انہی اداروں کی جانب سے لوگوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ گرمی سے متعلق بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں جبکہ اس شہر میں سورج کی تپش سے براہ راست متاثر ہونے والے مزدور اور کارکن طبقے کے لئے شدید گرمی کی لہر کے دوران کوئی سہولت میسر نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی قانون سازی کرنے کا سوچا گیا۔ دوسری جانب یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ گرمی کے موسم میں مسلسل پانی پیتے رہیں جبکہ لوگوں کو اسی شدید گرمی اور دھوپ میں ایک گیلن پانی کے لئے گھنٹوں قطار میں لگ کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔
حکومتی اداروں کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئیے کہ کم از کم شدید گرمی کی متوقع لہروں کے ایام میں بجلی اور پانی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے علاقوں میں برف کی دستیابی، ساتھ ہی برف کے کارخانوں کو پانی و بجلی مہیا کرنا، بھیڑ والے عوامی مقامات پر سائے کے لئے چھتریاں، مزدور طبقے کے لئے کام کے اوقات کار مخصوص کرنا، اسپتالوں سے لے کر چھوٹے دوا خانوں تک میں ایسے انتظامات کرنا جس سے شدید گرمی کے اثرات کا شکار مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آبادیوں پر گرمی کی لہر کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحول بچاؤ مہم کے ذریعے ممکنہ حد تک شجر کاری کو فروغ دیا جائے۔ گرمی کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر جہتی نکتہ نظر کی ضرورت ہے جس میں تعلیم و آگاہی، پانی، بجلی و صحت کی سہولیات تک رسائی، بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور سیاسی مرضی جیسے نکات شامل ہوں۔