ہیٹ ویو اور موسمیاتی تبدیلیاں: خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے

ہیٹ ویو اور موسمیاتی تبدیلیاں: خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے
پاکستان میں اس سال مارچ اور اپریل کے دوران جو درجہ حرارت رہا ہے اس نے تمام ریکارڈ توڑدئیے باالخصوص رواں سال مارچ کا مہینہ 1961 کے بعد سے اب تک گرم ترین مہینے کے طور پر سامنے آیا ہے اور پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کا درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا- اسی طرح اپریل کے مہینے میں، کراچی کا اپریل کا کم سے کم درجہ حرارت (جو کہ پہلے 28 ڈگری سینٹی گریڈ تھا) کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا اور 30 اپریل کی رات کو کم سے کم درجہ حرارت 29.4 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ پھر مئی کے مہینے میں ایک اور شدید گرمی کی لہر کے نتیجے میں سندھ، پنجاب، اور بلوچستان میں پارہ بلند رہا اور سبی اور جیکب آباد میں 50 ڈگری جبکہ ملتان میں 48 ڈگری، لاہور میں 46 ڈگری سینٹی گریڈ اور کراچی میں 42 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا جبکہ کراچی میں ہوا میں نمی کے تناسب کے باعث محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا- عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسی بنیاد پر جیکب آباد کو کہا تھا کہ یہ شہر انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں اور موجودہ صورتحال میں جیکب آباد کے بعد کراچی کو ناقابل رہائش شہر قرار دیا جاسکتا ہے- کیونکہ گرمی کی شدید لہر کے ساتھ ہی پانی اور بجلی کی فراہمی میں تعطل نظر آنے لگتا ہے جس سے صوتحال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے-

گرمی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پڑتی ہے مگر گنجان آباد ساحلی شہر ہونے کی بدولت کراچی خاص طور پر خطرے کی زد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کراچی میں گرمی کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ کراچی میں گرمی کا دورانیہ بڑھتا ہی جا رہا ہے کراچی میں سال کے بارہ مہینوں میں سے چھ ماہ شدید گرمی اور باقی کے تین ماہ جھلسادینے دینے والی گرمی پڑتی ہے جب کہ تین ماہ معتدل اور نسبتا ٹھنڈے قرار دیے جا سکتے ہیں۔

کسی ایک علاقے، ملک یا خطے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کے 'اوسط' پر مشتمل ہوتی ہے اوراس 'اوسط' میں ہونے والی تبدیلی کو ماحولیاتی یا موسمیاتی تبدیلی کہتے ہیں۔ مختلف عوامل و مظاہر سب سے بڑھ کر اثرات کی بدولت اب ماحولیاتی تبدیلی کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں اسے اہمیت دی جارہی ہے لوگ اب اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں سے مختلف بر اعظموں کا صدیوں پرانا ماحولیاتی نظام تبدیل ہو رہا ہے جس کے مختلف خطوں اور علاقوں پر اثرات نمایاں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث دنیا بھر میں درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ شدید گرمی کی لہریں، سیلاب، سمندری مداخلت، پانی کی قلت، زراعت میں کمی سے شدید قحط سالی، سطح سمندر میں اضافہ اورطُوفانی آندھی موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق بڑے خطرات ہیں جن میں سے اکثر سے ہمارا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر سکتی ہے کیونکہ ہم کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

اگر چہ موسمیاتی تبدیلیوں کی فہرست 2021 کے مطابق، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا آٹھواں ملک ہے مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پا کستان دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثر ممالک میں درجہ اول نہیں تو درجہ دوئم ضرور رکھتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کے انداز میں واضح تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے اور مقدار میں اضافہ ہوا ہے یعنی کم وقت میں شدید اور تیز بارشیں۔ اسی طرح موسم سرما سکڑ کر محض تین سے چار ماہ کا ہو گیا ہے جبکہ موسم گرما طویل اور شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ شہری علاقوں کو درختوں کی کٹائی اورگنجانیت کی بدولت ہیٹ ویوز کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں میں سمندری مداخلت نے لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کو تباہ کر دیا جس سے وہاں کے مقامی لوگوں کی زندگیاں اور ان کا ذریعہ معاش شدیدمتاثر ہوا ہے اور لاکھوں افراد شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

اسی طرح 2010 میں دریائی سیلاب سے بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے اور ان کا روزگار ختم ہوگیا جس نے ان خاندانوں کو شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور کیا اور یہ لوگ ماحولیاتی پناہ گزینوں کے طور پر شہروں میں آباد ہوگئے یہ الگ بات ہے کہ شہروں میں پہنچنے کے بعد ان نقل مکانی کرنے والوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور رہائش و روزگار کے لیے جدوجہد نے انہیں غیر یقینی زندگی کی صورت حال سے دو چار کیا۔ اس کی بڑی مثال 6000 سے زیادہ موسمیاتی مہاجرین ہیں جو کراچی میں سپر ہائی وے کے ساتھ جھگیاں بنا کر رہ رہے ہیں یہ وہی خاندان ہیں جو 2010 کے سیلاب کے بعد سندھ کے مختلف دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے آج بھی یہ خاندان بنیادی سہولیات زندگی سے محروم ہیں ان کے پاس نہ پانی ہے نہ بجلی اور نہ ہی گیس کا انتظام ہے ان کی جھگیاں انہیں موسم کی سختیوں یعنی شدید بارش، سخت سردی اور شدید گرمی کی لہرسے محفوظ رکھنے میں ناکام ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں سیلاب، خشک سالی اور سمندری مداخلت کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہاہے اور یہ خدشہ ہے کہ مزید لاکھوں خاندان ان عوامل سے ممکنہ طور پر متاثر ہوں گے اسی طرح شہری علاقوں جیسے کراچی میں شہری سیلاب سے نمٹنے کے لئے شہر کے تین بڑے نالوں محمودآباد، اورنگی نالہ اور گجر نالے کی چوڑائی کی بحالی کے نام پر ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے اور ابھی مزید خاندان اورلوگ غربت یا بے گھر ہونے کا سامنا کریں گے۔

ماحولیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موسم میں تبدیلیوں اور شدت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات جیسے گرمی کی لہر، بارشیں، سیلاب اور طوفان بار بار آئیں گے اور ان کی شدت میں اضافہ ہو تا جائے گا اور یہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے لیے شدید خطرے کا باعث ہو گا کیونکہ یہ تمام معاملات پینے کے پانی و خوراک کی کمی سے جڑ جاتے ہیں

اب ا ہم سوال یہ ہے ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کونسا ہے؟ وہ ہیں کچی آبادیوں اور جھگی اور جھونپڑیوں میں رہنے والا انتہائی کم آمدنی والا کمزور طبقہ، کیونکہ ان پسماندہ اور غریب آبادیوں کے مکینوں کے پاس حالات کے مطابق ڈھلنے کا امکان کم ہوتا ہے اس لیے وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ کراچی کی 62 فیصد آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہیں ان میں تقریبا پچاس فیصد زیادہ کمزور ہیں اور خطرے کی زد پر ہیں، - یہ وہ طبقہ ہے جسے پالیسی بنانے والے حکام اور بیوروکریٹس غیر قانونی سمجھتے ہیں اور انہیں ترقیاتی ا سکیموں اور منصوبوں میں شامل نہیں کرتے، اس طرح ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ کسی سطح پر ان کی شنوائی نہیں۔

کراچی میں 2020 میں شہری سیلاب ایک مسئلے کے طور پر سامنے آیا کہ تقریبا شہر ڈوب گیا تھا تھا تو وفاقی حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو برساتی پانی اور سیوریج کے نالوں کی صفائی اور چوڑائی کو بہتر بنانے جیسے منصوبوں کو انجام دینے کی ذمہ داری سونپی۔ لیکن ریاستی اداروں نے ان نالوں کے دونوں جانب 30 فٹ روڈ کی تعمیر کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور وہاں کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کو بے دخلی و بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑا یوں ان وفاقی اداروں کی مداخلتوں نے کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کر دیے کیونکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو ئےتھے کیونکہ ان کے گھر مسمار کر دیئے گئے تھے۔

اسی طرح ساحلی برادریاں بالخصوص ماہی گیر طبقہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سیوریج کے پانی سے لے کر صنعتی فضلہ تک براہ راست سمندر میں ڈالا جارہا ہے اور وقت کےساتھ اس کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے سمندری حیات، مینگرووز اور ماہی گیروں کی برادریوں کو شدیدخطرات لاحق ہو گئے ہیں

وفاقی و صوبائی حکومتوں بشمول اداروں کو قطعا اندازہ نہیں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقامی افراد کی روزگار اور زندگی کس حد تک متاثر ہو رہی ہے۔ شہروں میں گنجانیت بڑھتی جارہی ہے جبکہ پانی و بجلی کی قلت کے سبب گرمی کی لہر بھی بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ 2015 میں کراچی میں ہوا۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں بڑے رقبے اور دور دراز تک آبادی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے خطرات بھی آفات میں تبدیل ہوجاتے ہیں مجموعی صورتحال یہ ہے کہ پورے ملک میں آفات سے نمٹنے کی شدید کمی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دیگر اقدامات کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ آفات سے نمٹنے کے لئے ایک مکمل نظام کی ضرورت ہے، جس میں درجہ حرارت کی پیمائش، بارشوں کی مقدار، خشک سالی، خوراک کی پیداوار اور پانی کی گرتی سطح کو روزانہ کی بنیاد پر ریکارڈ کر کے ایک مکمل حکمت عملی ترتیب دی جائے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ تمام مسائل کے بہترحل نکالے جا سکیں۔

کراچی میں مقامی افراد، اور تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت شجر کاری کی مہم چلا رہے ہیں مگر صورتحال اس سے زیادہ اقدامات کی متقاضی ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہ کرنے کی کی ضرورت ہے کہ زمینی سطح پر کیا ہو رہا ہے اور مقامی موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کے بارے نوجوان نسل کو بتانے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں یہ آگاہی اور شعور بہت ضروری ہے کہ موسمیاتی تبدیلی واقعی ایک بڑا خطرہ ہے اور جیسا کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے ظاہر ہورہا ہے کہ مستقبل میں ہمیں زیادہ خطرات کا سامناکرنا ہوگا۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے انسانوں، جانوروں اور سمندری زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کے مجموعی ماحول کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بہت سے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ پاکستان نے 2015 میں پیرس معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ دونوں حصوں میں موسمیاتی تبدیلی کی شدت کو محدود کرنے کے لئے خاطر خواہ کارروائی ناگزیر ہے۔

پالیسی سازی اور ترقیاتی منصوبوں میں کمزور برادریوں اور طبقات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے سے متعلق ہوں کیونکہ وہ زیادہ تر لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ موسمیاتی فیصلوں میں ماہرین کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص کمزور اور متاثرہ طبقات کو شامل کیا جائے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے