Get Alerts

موسمیاتی تبدیلی

موسمیاتی تبدیلی

از آبیناز جان علی


 

بدلتے ہوئے موسم نے ہر ذی روح کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ شدید گرمی اور شدید سردی سے انسان کا برا حال ہے۔ اپنے ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو حد درجہ متاثر کیا ہے۔ بحرِ ہند میں واقع عالمی نقشے میں ایک نقطے کے مانند موریشس جیسا چھوٹا جزیرہ بھی بدلتے ہوئے موسم کے مضر اثرات سے مبرا نہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہم ایک ہی دینا میں رہتے ہیں اور ماحولیات کی طرف غیر ذمے داری کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا ہے۔


جدیدیت کے زمانے میں زراعت، صنعت و حرفت اور رہائشی مطالبات کو پورا کرنے کی غرض سے جنگلات صاف کئے گئے۔ انسانوں کی دیگر ضروریات جیسے فرنیچر سازی، کھانا پکانا، ایندھن اور مکانات کی تعمیرات نے کثیر تعداد میں جنگلات کی کٹائی کو بڑھاوا دیا۔ جنگل کو’ بارش کی مشین‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پیڑوں کی جڑیں پانی کو زمین میں جذب کر لیتی ہیں اور پانی پتوں کے ذریعے بھاپ اور بخارات کی شکل میں فضا میں واپس منتقل ہوتا ہے۔ اس طرح فضا میں بادل بنتے ہیں جو پھر بارش بن کر زمین پر گرتے ہیں۔ معدوم شجرکاری سے اس نظامِ تنفس میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ بارش کی کمی سے زرعی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے اور قحط سالی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پانی جب فضا میں نہیں پہنچتا تو دریاؤں اور ندیوں میں سیلاب آتا ہے۔


پیڑ پودے اپنی ہریالی اور رنگ برنگ پھولوں سے زمین کی زیبائش کو دوبالا کرتے ہیں۔ آکسیجن فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کاربن دائی اکسائیڈ اور دیگر مضر مادوں سے فضا کو پاک رکھتے ہیں۔ یہ ذائقہ دار پھل دینے کے ساتھ ساتھ سایہ بھی دیتے ہیں۔ گرمی کی شدت میں کمی پیدا کرتے ہیں۔ یہ پرندوں اور جانوروں کا مسکن ہیں۔ ان کی موجودگی سے غبار کم ہوتا ہے۔ نیز کاغذ بھی پیڑوں کی ہی دین ہے۔ پودوں میں طبی فوائد بھی موجود ہیں۔ پودوں کی جڑیں مٹی کو باندھ کے رکھتی ہیں۔ جب سبزہ ختم کر دیا جائے تو ڈھیلی مٹی کھسکنے لگتی ہے اور زلزلہ رونما ہوتا ہے۔ زمین کے اندر ارتعاش سے چہار سو بربادی پھیلنے لگتی ہے۔


جنگلات کی کٹائی سے گرین ہاؤس اثر وجود میں آتا ہے۔ گرین ہاؤس شیشہ یا پولی تھین سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس میں سورج کی روشنی اندر داخل ہوتی ہے لیکن باہر نہیں جا پاتی۔ اس سے درجہ حرارت میں قدرے اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پودوں سے نکلی کاربن گیس بھی اس میں بند رہتی ہے۔ سرد علاقوں میں پودوں کو مناسب درجہ حرارت فراہم کرتے کے لئے یہ سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح خورشید کی کرنیں زمین میں داخل ہوتی ہیں لیکن فضا میں موجود کثیر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس، سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس اور میتھین گیس سورج کی شعاعوں کو زمین کے اندر مقید کرتی ہیں۔ لہٰذا درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور زمین کی سطح گرم پڑجاتی ہے۔


بڑھتی ہوئی گرمی جانوروں اور انسانوں کی جانوں کی لئے مہلک ہے۔ اس کے نتیجے میں قحط اور خشک سالی بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مٹی میں نمی کی کمی سے پیداوار میں کمی رونما ہوتی ہے۔


اپنی روزمرہ زندگی میں ہم ایسی مضر اشیاء استعمال میں لاتے ہیں جن میں کلوفلوروکاربن گیس فضا میں تحلیل ہو کر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اوزون گیس کی موٹی سی تہہ جو قرۂ ارض کے گرد چھتری کا کام دے کر سورج کی مضر شعاعوں کو زمین کے اندر آنے سے روکتی ہے, یہ الٹراوائلیلٹ شعاعیں انسانوں میں جلد کے سرطان کی پروردہ ہیں۔ سپرے کینز، ائیرکنڈیشنز، ریفریجریٹر میں موجود سی۔ایف۔ سی گیس اوزون کی تہہ کو پتلا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سوراخ پیدا ہوتا ہے۔ زمین کی بڑھتی ہوئی گرمی سے قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی میں منجمد برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس سے پانی کی سطح اونچی ہو جاتی ہے۔ اس سے سیلاب پیدا ہوتا ہے اور جزائر کے غرق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔


اس کے علاوہ آبی آلودگی بھی کافی عام ہے۔ صنعتی، زرعی اور انسانی غلاظت جب پانی میں مل جائے تو ندی اور سمندر کا پانی استعمال کے لائق نہیں رہتا۔ اس پانی میں رہنے والی مچھلیوں اور جانداروں کے جسم میں زہر اور پارہ پھیل جاتا ہے۔ پرندے جو بحری مچھلیوں کو اپنی خوراک بناتے ہیں ان کے جسم میں بھی پارہ چلا جاتا ہے۔ جب انسان مچھلیوں کو کھاتے ہیں تو ان کی صحت پر خراب اثر پڑتا ہے اورموت بھی ہو سکتی ہے۔ کارخانوں کے دائی کے پانی، کھیتوں سے کیڑے مار دوائیاں اور انسان کے کوڑا کرکٹ پھینکنے سے ندی اور سمندر کا پانی سڑنے لگتا ہے جس سے بد بو پھیلتی ہے۔ آلودہ پانی پینے اوراس میں نہانے سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں۔


دوسری طرف سائنس کی برق رفتار ترقی سے دورِ جدید میں شور ہر جگہ ہے۔ راستوں پر گاڑیوں کا شور، کاخانوں کا شور، ہوائی جہاز کا شور، اور انواع و اقسام کی مشینوں کی بے ہنگم آوازیں ہیں۔ واشنگ مشین، مصالحے پیسنے کی مشین اور سلائی مشین ہمارے معمول کا حصّہ ہیں۔ ان سے سماعت کو تکلیف پہنچتی ہے۔ شور و غل سے دماغ پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس سے مستقل سردرد ہوتا ہے۔ لاؤڈ سپیکر، شادی بیاہ کا بینڈ باجہ، موٹر گاڑیوں اور کارخانوں کی آوازوں سے سکون ختم ہو جاتا ہے۔ ایک آدمی کی سماعت ایک واٹ تک محدود ہے۔ اونچی آواز کی لہریں جب کانوں کے پردے سے ٹکراتی ہیں تو نیند حرام ہو جاتی ہے، مزاج میں چڑچڑاپن آتا ہے۔


زمین میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے سے گندگی پھیلتی ہے۔ بدبو سے ابکائی آتی ہے۔ چوہوں اور جراثیم اس میں گھر بناتے ہیں۔ اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ زمینی آلودگی ماحول کو بدصورت بنانے کے ساتھ انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں، موٹر گاڑیوں اور ذرائع آمد و رفت سے پیدا ہونے والے دھویں فضائی آلودگی کے پروردہ ہیں۔ آلودہ ہوا میں سانس لینے سے پھیپروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ آنکھوں میں چبھن ہوتی ہے اور جلد کے سرطان کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔ کاربن مونوآکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ، نائٹروجن اور ہائیڈروکاربن جیسی زہریلی گیسوں کی وافر مقدار بارش کے پانی سے مل کر تیزاب بن جاتی ہیں۔ تیزابی بارش جاندار کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے۔


نیز نیوکلیائی توانائی کے استعمال سے فضائی، آبی اور زمینی آلودگیاں وجود میں آتی ہے۔ نیوکلیائی توانائی سے رونما ہونے والی ریڈیائی لہروں کے مضر اثرات عرصۂ دراز تک محسوس ہوتے ہیں۔ اس کا فضلہ پانی میں تحلیل ہو کر مچھلیوں پر جمع ہوتا ہے اور انسانوں کی خوراک بننے پر ہڈیوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ نباتات اس کی زد میں آتے ہیں اور جانور کے گھاس کھانے سے یہ ان کے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ جانوروں کے دودھ اور گوشت کے ذریعے انسانی ہڈیوں میں جمع ہو کر ان کے خون کے خلیہ بننے کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ نتیجتاً ہڈی کے سرطان سے انسان کی موت ہوتی ہے۔ نیوکلیائی توانائی کی ریڈیائی لہریں انسانی اور آبی زندگی کے لئے خطرہ پیدا کرتی ہیں۔


خدا کی یہ زمین نہایت دلفریت ہے۔ افسوس کہ انسانوں کے غیرذمہ دارانہ رویوں سے قدرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ چنانچہ یہ ہمارا فرض عین ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کی طرف راغب ہوتے ہوئے شجرپروری، کوڑے دان کا استعمال، صفائی پسندی کو اپنی پرتعیش زندگی میں جگہ دیں۔