ملکیت خداداد پاکستان اس سال 73 برس کا ہو جائے گا، 14 اگست 1947 کو جو سفر شروع ہوا وہ تمام تر مشکلات کے باوجود جاری ہے، درمیان میں 16 دسمبر 1971 کا سانحہ بھی رونما ہوا جب یہ ملک دو لخت ہو گیا مگر اس کے باوجود اس زخم خوردہ پاکستان کو بھٹو صاحب جسے عظیم قائد نے کو صحیح راستے پر گامزن رکھا اور یوں ایک بڑے المیہ سے گزر کر ملک چلنا شروع ہو گیا۔
آج 73 برسوں بعد ایک سوال ہنوز جواب طلب ہے ہمارے سبز ہلالی پرچم میں جو سفید رنگ کے شراکت دار ہیں۔ کیا ان کو ہم ان کا جائز مقام دینے میں اب تک کامیاب رہیں ہیں، اگر دل پر ہاتھ رکھ کر ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں اور اپنا گریبان چاک کریں تو جواب نفی میں آئے گا۔ تقسیم کے وقت اس ملک کی اقلیتیں 20 فیصد کے قریب تھیں اب 3 فیصد رہ گئی ہیں۔ ہم سے آخر کون سی ایسی کوتاہی سرزد ہوئی ہے جو اس ملک میں بسنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور یہودی یہ ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں بس گئے ہیں۔
کیا سوچا تھا انہوں نے تقسیم کے وقت اور کیا ہوا ان کے ساتھ۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جو اپنی ذات اور سوچ میں ایک لبرل اور سیکولر شخص تھے، وہ 11 اگست 1947 میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ملک بلا امتیاز اپنے تمام شہریوں کے لیے یکساں ہے، اس ملک میں بسنے والے تمام شہری پہلے پاکستانی ہیں بعد میں ہندو، مسلمان اور عیسائی ہیں۔ ہم ایسے ہی چلتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ ہندو، ہندو نہیں رہے گا مسلمان، مسلمان اور مسیحی، مسیحی نہیں رہے گا، سب پاکستانی بن کر سوچیں گے۔
جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دستور ساز اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے تو اس دستور ساز اسمبلی کی صدارت ایک ہندؤ جوگندر ناتھ منڈل کر رہے تھے۔ جو بعد میں ملک کے پہلے وزیر قانون بن گئے، اس وقت ملک کے چیف جسٹس کارنیلس تھے اور چیف آف آرمی جنرل گریسی تھے۔ آپ اندازہ کرلیں کہ بانی پاکستان کس سوچ کے حامل تھے اور وہ کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے صرف ایک سال بعد اس ریاست کی ہئیت میں تبدیلی کا عمل شروع کر دیا گیا، رفتہ رفتہ ملک کے اہم ترین کلیدی عہدوں سے اقلیتوں کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سب سے بڑا ظلم جو ریاست کے ساتھ کیا گیا وہ بانی پاکستان کی 11 اگست والی تقریر کو غائب کر دیا گیا تاکہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ریاستی ہئیت بدل دی جائے۔ طویل عرصے تک اس تقریر کا کچھ پتہ نہ چل سکا مگر ایک مرد میدان شہباز بھٹی شہید نے یہ بھاری پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر اس گمشدہ تقریر کو تلاش کرنا شروع کیا اور 20 اگست 2009 میں وہ کامیاب ہوئے اور سرکاری سطح پر یہ اعلان کیا گیا کہ 11 اگست کے دن کو اب سرکاری طور پر منایا جائے گا۔
اس ساری جہدوجہد کی قمیت شہباز بھٹی کو اپنی جان کا نذرانہ دے کر چکانی پڑی ان کا خون ناحق کر دیا گیا۔
وطن عزیز میں اقلیتوں کا استحصال آج بھی جاری ہے جو 5 فیصد کوٹہ سسٹم ان کا بنیادی حق اس کے تحت نہ ان کو ملازمتیں مل رہی ہیں اور نہ اقلیتی بچوں کے داخلے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہو رہے ہیں۔
سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی کی جا رہی ہے، پنجاب میں کبھی گوجرہ کبھی جوزف کالونی لاہور اور چناب نگر جیسے واقعات جاری ہیں۔ خیبرپختونخوا میں سکھوں اور بلوچستان میں ہندوؤں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ آج وطن عزیز میں اقلیتوں کا اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے، ان کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنا ضروری ہے، چاہے اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے۔
اگر بھارت میں ملک کا صدر اور چیف الیکشن کمشنر اور گورنروں کو مسلمان بنایا جا سکتا ہے تو پاکستان میں کسی ہندو، سکھ اور مسیحی کو گورنر یا صدر کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔ 11 اگست کا مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے۔ 73 برسوں بعد بھی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کی بازگشت قانون ساز اسمبلی میں گونج رہی ہے۔
وزراعظم عمران خان آپ اگر قائداعظم ثانی بنا چاہتے ہیں تو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اس کی ابتدا اپنی کابینہ سے کریں کیونکہ آپ کی کابینہ میں کوئی اقلیتی وزیر نہیں ہے۔ اپنی اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کابینہ کا واضح فرق دیکھیں اور سبز ہلالی پرچم میں سفید رنگ کے شراکت داروں کا حق ان کو دیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔