Get Alerts

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد انگریز پورے ہندوستان پر چھا گئے اور دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ مغل دور میں سرکاری زبان فارسی تھی۔ اس کے علاوہ اردو زبان کی ترقی وترویج کے لئے بھی مسلمانان ہند نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اب انگریز کے ہندوستان پر قابض ہونے سے ہندوستان کی عبوری سیاست، معاشی اور معاشرتی زندگی تبدیل ہو کر رہ گئی۔

ہندوستان کے نئے آقاؤں کے زیر سایہ سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے اب انگریزی زبان اور جدید تعلیم پر مکمل دسترس لازم وملزوم ہو گئی تھی۔ لیکن افسوس کہ مسلمانان ہند نئی سیاسی، معاشی تبدیلیوں کے لئے کلی طور پر تیار نہ تھے۔ اس لئے دوسری اقوام خصوصاً ہندوؤں کے مقابلے سے زیادہ انگریز کے عتاب کا نشانہ بنے۔

دوسرا یہ کہ انگریز 1857ء کی جنگ آزادی کا ذمہ دار صرف اور صرف مسلمانوں کو سمجھتے تھے۔ حالانکہ اس میں دیگر کئی اقوام نے حصہ لیا تھا۔ جدید انگریزی تعلیم سے نابلد ہونے کی وجہ سے مسلمان سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے بھی مشکلات کا شکار رہے۔ لیکن خداوند تعالیٰ نے ان نامساعد حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک مسیحا سر سید احمد خان کی صورت میں بھیج دیا۔ آپ جدید تعلیم کے حصول کے لئے علی گڑھ سکول اور پھر کالج کا قیام عمل میں لائے۔ آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ آپ نے مسلمانان ہند پر زور دیا کہ وہ جدید انگریزی تعلیم حاصل کریں تاکہ تعلیم کے میدان میں وہ ہندوؤں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔

ابتدا میں سر سید احمد خان نے مسلمانان ہند کو مشورہ دیا کہ جب تک وہ جدید تعلیم کے حصول میں نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کر لیتے عملی سیاست سے کنارہ کشی ہی اختیار کریں۔ انگریز کے ہندوستان پر مکمل قابض ہونے کے باوجود ہندوستان کی تمام اقوام انگریز کی غلامی سے چھٹکارا پانے کے لئے کبھی پرامن یا پھر کبھی پرتشدد سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہیں۔

1885ء میں ہندوستان کے سیاسی افق پر دراصل انگریز کی ہی پشت پناہی سے ایک سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے منشور کا مفصل جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ سیاسی جماعت واقعی ناصرف ہندوستان کی آزادی وخود مختاری کے لئے میدان عمل میں آئی ہے۔ بلکہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے بھی شاید اہم کردار ادا کرے گی۔ چونکہ اس جماعت کے فلسفے کے پیچھے متحدہ قومیت کی تشکیل کا نظریہ تھا لہذا ہندوستان کی تمام اقوام بشمول مسلمانان ہند نے بھی ابتدا میں ہی جوق درجوق اس میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن سر سید احمد خان اور دیگر کئی مسلم اکابرین نے اپنی دور اندیشی کی بدولت مسلمانان ہند کو انڈین نیشنل کانگریس سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ لیکن پھر بھی ہندوستان کی دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جوق درجوق اس جماعت میں شرکت کی بلکہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے لئے اسے ایک مضبوط اور مستند سیاسی پلیٹ فارم بھی گردانا۔ کئی عظیم مسلمان رہنماؤں مثلاً مولانا عبدالکلام آزاد، خان عبدالغفار خان، بدر الدین طیب جی، رحمت اللہ سیانی، نواب سید محمد بہادر اور ہمایوں جہاں بہادر جیسی قد آور شخصیات نے انڈین نیشنل کانگریس سے ہی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یقیناً ان عظیم قوم پرست مسلمان رہنماؤں نے نیک نیتی اور خلوص سے ہی انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم کو ہندوستان کی آزادی کے لئے قابل اعتماد سمجھا۔

چند محققین کے مطابق ان قوم پرست رہنماؤں کی بدولت ہی 1937-38ء کے انتخابات میں کانگریس نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی اور درحقیقت مسلم لیگ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہ کر سکی۔ دراصل 1937-38ء کی کانگریسی وزارتوں کی مسلمانوں کے خلاف ناانصافیوں سے پہلے ہی 1867ء کے اردو ہندی تنازعہ میں اردو کے خلاف ہندوؤں کی متعصبانہ سوچ سامنے آچکی تھی۔

مندرجہ بالا واقعات اور ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات ہی دراصل " متحدہ قومیت کی تشکیل کے نظرئیے کی مکمل ناکامی تھی۔

متحدہ قومیت کی تشکیل کے نظریے کے ساتھ ہی کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے "جدید مغربی طرزجمہوریت" کا بھی مطالبہ کر دیا یعنی ایک فرد ایک ووٹ۔ لیکن یہ مطالبہ کسی بھی صورت میں مسلمانان ہند کے مفادات میں نہیں تھا۔ چونکہ کسی بھی حلقے سے ہندوؤں کی اکثریت کی بدولت مسلمان امیدواروں کا جیتنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان عددی اعتبار سے تو ایک اقلیت تھے لیکن لفظ " قوم" کی ہر تعریف کی رو سے ایک مکمل قوم تھے اور ہیں۔

"متحدہ قومیت کی تشکیل کے فلسفے" کے مقابلے میں سر سید احمد خان نے سب سے پہلے " دو قومی نظریے " کی داغ بیل ڈالی۔ دراصل جدید مغربی طرزِ جمہوریت برطانیہ میں تو کامیاب ہو سکتی تھی جہاں صرف ایک رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ بستے ہیں لیکن جدید مغربی پارلیمانی طرزحکومت ہندوستان کے لئے قطعا ً مناسب نہیں تھی۔ چونکہ ہندوستان ایک برصغیر ہے جہاں کئی رنگ، نسل اور مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ دراصل کانگریس عددی بنیاد پر مسلمانوں کو آئینی اور انتخابی شکست دینا چاہتی تھی۔ لیکن کانگریس یہ نہیں جانتی تھی کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو آئینی اور انتخابی (Electoral) شکست دینا مشکل نہیں ناممکن تھا۔ محمد علی جناحؒ ناصرف ہندوستان کے سب سے بڑے وکیل، مدبر، سیاست دان تھے بلکہ ہندوستان کے سب سے بڑے آئینی ماہر (Constitutionalist) بھی تھے۔ لہذا آپ بہت جلد کانگریس کے متحدہ قومیت کی تشکیل کے جھوٹے پراپیگنڈہ اور فلسفے کو سمجھ گئے تھے اور آپ نے 1920ء میں کانگریس کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا۔

جدید مغربی طرز جمہویت کے مقابلے میں شملہ وفد نے یکم اکتوبر1906ء میں سر آغا خان کی قیادت میں جداگانہ طریق انتخاب کا مطالبہ کیا۔ جسے انگریزی حکومت نے مختلف آئینی اصلاحات میں تسلیم بھی کر لیا جو کہ دراصل مسلمانان ہند کی ایک بڑی کامیابی تھی۔

انگریز نے 1909ء میں منٹو مارلے اصلاحات اور 1919ء کے مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات اور پھر 1935ء کے ایکٹ کے تحت مسلمانوں کے لئے جداگانہ طریق انتخاب رائج کیا۔ جو دراصل " متحدہ قومیت کے نظریے " کی مکمل شکست تھی۔ دراصل جداگانہ طریق انتخاب کو انگریزوں سے تسلیم کروا لینا ہی دو قومی نظریہ کی سب سے بڑی جیت تھی۔ انگریز روز اول سے ہی یہ جانتے تھے کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ لیکن انڈین نیشنل کانگریس اپنے قیام کے بعد سے ہی برطانوی راج کو یہ بات بارآور کرانے میں مصروف عمل رہی کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام لوگ بلا کسی امتیاز، رنگ، نسل اور مذہب صرف اور صرف ہندوستانی ہیں۔ لیکن دراصل کانگریس کی متعصبانہ پالیسیوں نے یہ ثابت کیا کہ متحدہ قومیت کی تشکیل کا نظریہ محض ایک دھوکہ اور فریب تھا۔

1937-38ء کی کانگرسی وزارتوں نے ہی انڈین نیشنل کانگریس کا اصل چہرہ مسلمانان ہند کے سامنے مکمل طور پر عیاں کر دیا تھا۔ اس سے پہلے 1932ء میں کمیونل ایوارڈ میں برطانوی حکومت نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے لئے جداگانہ طریق انتخاب نافذ کر دیا تھا۔

آج آزادی کے 75 سال بعد انڈین نیشنل کانگریس کا متحدہ قومیت کا نظریہ مکمل طور پر اپنی موت آپ ہی مر چکا ہے۔ لیکن دو قومی نظریہ آج بھی زندہ اور جاوید ہے۔ آج ہندوستان میں مودی سرکار کے زیر سایہ ناصرف مسلمان بلکہ مسیحی اور سکھ برادری بھی انتہا پسندی کا شکار ہے۔ 1948ء سے لے کر اب تک ہندوستانی افواج کئی مظلوم نہتے کشمیریوں کا قتل عام کر چکی ہیں۔ 1984ء میں بھارتی افواج نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر ننگی جارحیت کی اور پھر بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے تمام گھروں کو ہندو انتہا پسندوں نے ناصرف نذر آتش کیا بلکہ مسلمان عورتوں اور بچوں تک کو زندہ جلادیا۔

اب گذشتہ چند سالوں سے بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسیحی بھی محفوظ نہیں رہے۔ لہذا آج 75 سال بعد وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ متحدہ قومیت کی تشکیل کا نظریہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ جبکہ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ اور جاوید ہے۔

تاریخ کے اوراق چھاننے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس کی انتہا پسندانہ اور فرقہ وارانہ سیاست سے تنگ آکر جناحؒ  نے 1913ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1916ء میں میثاق لکھنؤ میں آپ نے پھر ایک کوشش کی کہ ہندو اور مسلمان مل کر آزادی کی جدوجہد کریں۔ اس موقع پر آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی قرار دیا گیا تھا۔

میثاق لکھنؤ 1916ء یقیناً کچھ تحفظات کے باوجود مسلمانوں کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ چونکہ کانگریس نے پہلی اور آخری بار مسلمانوں کے لئے جداگانہ طریق انتخاب کو تسلیم کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کو ایک الگ قوم کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس نے کبھی بھی جداگانہ طریق انتخاب کی حمایت نہیں کی۔ چونکہ جداگانہ طریق انتخاب دراصل کانگریس کے "متحدہ قومیت کی تشکیل " کے فلسفے کے خلاف تھا۔

کانگریس کی فرقہ وارانہ اور پرتشدد کارروائیوں سے تنگ آکر بالاخر جناحؒ نے 1920 ء میں کانگریس کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور پھر صرف اور صرف حصول پاکستان کے لئے کوشاں ہو گئے۔ وقت نے ثابت کیا کہ جناحؒ ناصرف ہندوستان کے سب سے بڑے وکیل، سیاستدان، محقق تھے بلکہ ایک بہت بڑے آئینی ماہر بھی تھے۔ جنہوں نے انگریزوں، انڈین نیشنل کانگریس اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا ہر پلیٹ فارم پر مکمل طور پر مقابلہ کیا۔

دراصل جناح کانگریس کی " متحدہ قومیت کے نظریہ " اور جدید مغربی طرز جمہوریت میں چھپے دھوکے اور فریب کو بخوبی جانتے تھے۔ 1928ء میں محمد علی جناحؒ نے نہرو رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ چونکہ کانگریس مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کی سیاسی قوت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس کے جواب میں محمد علی جناحؒ نے 1929ء میں اپنے مشہور زمانہ 14 نکات پیش کئے اور ہندوستان کے لئے وفاقی نظام تجویز کیا۔ تاکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں کم از کم مسلمان صوبائی خود مختاری کے ثمرات حاصل کر سکیں۔

بدقسمتی سے کانگریس اور انگریز نے 1945ء کے وول پلان کی ناکامی کا ذمہ دار بھی صرف محمد علی جناحؒ کو قرار دیا۔ چونکہ محمد علی جناح نے صاف اور واضح اعلان کر دیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ دراصل مسلمانوں کی نمائندگی کے مسئلہ پر ہی وول پلان میں انگریز، کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا۔ مسلم لیگ نے کانگریس کی جانب سے مولانا عبدالکلام آزاد اور پھر انگریز کے کہنے پر سر خضر حیات ٹوانہ کو بھی عبوری حکومت میں مسلم نشست پر نامزدگی سے مکمل طور پر انکار کر دیا تھا اور ایک دفعہ پھر کانگریس اور انگریز پر واضح کر دیا کہ صرف مسلم لیگ ہی عبوری حکومت میں مسلم نمائندوں کے انتخاب کا حق رکھتی ہے۔ مسلم نمائندگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انگریز نے جداگانہ طریق انتخاب کی بنیاد پر 1945-46ء میں مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مسلم لیگ نے مرکزی اور صوبائی اسمبلی میں شاندار کامیابی حاصل کی اور یوں 14 اگست1947ء کو پاکستان کا خواب ایک حقیقت ثابت ہوا۔

بدقسمتی سے کانگریس نے ہمیشہ جناحؒ کو فرقہ وارانہ سیاست کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن درحقیقت اپنی سیاسی سوچ اور فلسفہ کی بنیاد پر جناح ناصرف مسلمانان ہند بلکہ ہندوستان کی تمام مظلوم اقوام کی آواز بن گئے۔ آپ نے جوگندر ناتھ منڈل کو عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی جانب سے وزیر مقرر کیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا۔

متحدہ پنجاب اسمبلی کے آخری مسیحی سپیکر ایس پی سنگھا اور تمام مسیحی ارکان پنجاب اسمبلی نے غیر مشروط طور پر مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا اور پھر مغربی پنجاب پاکستان کا حصہ بن گیا۔ لہذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب آپ کے تمام اختلافات کو بھلا کر وطن عزیز پاکستان میں قومی یکجہتی کو فروغ دیں اور جناحؒ کے پاکستان کو ایک دفعہ پھر تلاش کریں۔ محمد علی جناحؒ نے 11 اگست1947ء کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے تمام پاکستانی شہریوں کو بلا کسی رنگ، نسل اور مذہبی تفریق کے ایک برابر شہری قرار دیا تھا۔ آئیں آج ہم سب مل کر دوبارہ بلا کسی تفریق رنگ، نسل اور مذہب ایک نیا پاکستان تخلیق کریں۔

 

پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔