وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے فوج مخالف بیان کی وجہ سے اے آر وائے نیوز شدید مشکلات میں ہے۔ اس کے سربراہ سلمان اقبال سمیت تمام سینیئر انتظامیہ کے خلاف کیس درج کیے جا چکے ہیں۔ اب انتظامیہ کی جانب سے وضاحتیں دی جا رہی ہیں کہ ان کا ادارہ فوج مخالف کسی مہم کا حصہ نہیں ہے۔

تاہم، ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے متعدد شخصیات کے خلاف خبریں چلانے اور ان کی پگڑی اچھالنے کی پاداش میں برطانوی عدالتوں میں اے آر وائے کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ ادارے پر بھاری جرمانے عائد ہوئے اور معافیاں تک مانگنا پڑیں۔

2017 میں اے آر وائے نیٹ ورک نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کے خلاف اپنے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے بعد برطانیہ میں دیوالیہ پن تک کی درخواست دائر کی تھی۔ آئیں آپ کو برطانوی عدالتوں میں اے آر وائے کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

اسحاق ڈار کا اے آر وائے کے خلاف ہتک عزت کیس

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مارچ 2021 میں اے آر وائے نیوز کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا تھا۔ چینل کی انتظامیہ نے معافی نامے کے ساتھ ن لیگی رہنما کو 85000 پائونڈ کی رقم ادا کی۔ جسے شریف ٹرسٹ کو عطیہ کر دیا گیا تھا۔

اسحاق ڈار نے اس کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ہتک عزت کا مقدمہ شروع کرتے وقت اس بات پر زور دیا تھا کہ انہیں کسی ٹی وی چینل کے خلاف قانونی مقدمے سے پیسہ کمانے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن مقصد برطانوی عدالت میں ریکارڈ سیٹ کرنا تھا کہ منی لانڈرنگ، کرپشن اور سرکاری عہدے کے غلط استعمال کے الزامات ہتک آمیز، جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے آر وائی کے این وی ٹی وی نے برطانیہ میں اعلانیہ ان سے معافی مانگی، تمام الزامات کو غیر مشروط طور پر واپس لے لیا اور ہائی کورٹ کو حلف دیا کہ وہ ان الزامات میں سے کسی کو نہیں دہرائے گا۔

سیاسی کارکن ناصر بٹ کو قاتل اور غنڈہ بنا کر پیش کیا گیا

مسلم لیگ ن کے رہنما ناصر بٹ کے بارے میں اے آر وائے نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک بلیک میلر، ڈرگ ڈیلر اور ایک جرائم پیشہ شخص ہیں۔ ان الزامات کے بعد ناصر بٹ نے بھی چینل کی انتظامیہ کے خلاف برطانوی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مقدمہ جیت لیا۔

اے آر وائے کی انتظامیہ نے ناصر بٹ سے ناصرف معافی مانگی بلکہ ان کے وکلا کی فیس ادا کی اور ہتکِ عزت کے عوض ان کو ہرجانہ بھی ادا کیا۔

NVTV نے اپنے معافی نامے میں لکھا کہ " ناصر بٹ صاحب نے ہمیں بتایا ہے اور ہم ان کا یہ مؤقف تسلیم کرتے ہیں کہ ان پر قتل، غنڈہ گردی، منشیات فروشی، سمگلنگ کے علاوہ پاکستان میں قانون سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لینے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ہم ناصر بٹ سے معذرت کرتے ہیں اور ہم ہرجانہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی وکلا کی فیسیں بھرنے کا بھی عہد کرتے ہیں۔"

ادارے نے مزید لکھا کہ انہوں نے 14 جولائی 2019 کو پروگرام نشر کیا تھا جس میں وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے الزام عائد کیا تھا کہ ناصر بٹ پاکستان میں قانون سے بھاگ کر برطانیہ میں بیٹھے تھے۔ اس کے علاوہ 7 جولائی کو چینل پر چلنے والی ایک رپورٹ میں ان پر لگائے گئے الزامات پر بھی معذرت طلب کی گئی ہے۔

بزنس مین میاں منشا پر منی لانڈرنگ کا جھوٹا الزام

اے آر وائے نے نومبر 2015 میں اپنے ایک پروگرام 'کب تک' میں سینٹ جیمز ہوٹل اینڈ کلب لمیٹڈ کے حصول کے سلسلے میں پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت میاں منشا پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا۔ میاں منشا نے واضح طور پر ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں صریحاً جھوٹا اور کسی بھی قسم کے میرٹ سے عاری قرار دیتے ہوئے اپریل 2016 میں اے آر وائے کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا۔

تاہم، اے آر وائے کی انتظامیہ میاں منشا پر لگائے گئے کسی الزام کا ثبوت فراہم نہ کر سکی۔ اور یوں اس کیس میں بھی اسے بھاری جرمانہ ادا کر کے معافی مانگنا پڑی۔ لندن ہائی کورٹ کے جسٹس نکلن نے ایک رضامندی کے حکم کی منظوری دے دی جس کے تحت اے آر وائے نیٹ ورک لمیٹڈ نے میاں منشا کو 2 لاکھ پاؤنڈ قانونی اخراجات اور 75 ہزار پاؤنڈ حقیقی نقصانات کی مد میں بطور جرمانہ ادا کیا۔

میر شکیل الرحمان پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام

اے آر وائے نے اپنے پروگرام ''کھرا سچ''، جس کی میزبانی اس وقت مبشر لقمان کرتے تھے میں نومبر 2014 میں جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کے خلاف ایک انتہائی جارحانہ مہم شروع کی۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایک انڈین ایجنٹ ہیں جن کے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطے ہیں اور وہ سی آئی اے کی ہدایت پر کام کرتے ہیں۔ وہ غداری، ریاست کے ساتھ بے وفائی اور سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان الزامات کے خلاف میر شکیل الرحمان نے برطانوی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ان کو انصاف فراہم کیا جائے، ان پر عائد کیے گئے تمام الزامات جھوٹے ہیں۔

لندن ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت 2016 میں شروع ہوئی جو سات دن تک جاری رہی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران اے آر وائے کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جیو کے مبینہ حملے کے جواب میں چینل نے جنگ اور جیو پر غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کے لئے کام کرنے کے الزامات نشر کیے تھے۔ انہوں نے مزید الزام لگایا کہ نشر ہونے والا مواد محض 'رائے' ہے نہ کہ 'حقائق'۔

ثبوت کے طور پر اے آر وائے نے غیر تصدیق شدہ سوشل میڈیا رپورٹس کی ایک فائل پیش کی جسے بعد میں عدالت نے مسترد کر دیا اور میر شکیل الرحمان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اے آر وائے کا رویہ جارحانہ، غیر مہذب اور ناقابل قبول تھا۔ اے آر وائے کے چیف آپریٹنگ آفیسر فیاض غفور نے سوالات کے جوابات دینے اور الزامات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔

عدالت نے اے آر وائے کو حکم دیا کہ وہ میر شکیل الرحمان کو ہتک آمیز الزامات لگانے پر 185,000 پائونڈ ہرجانہ ادا کرے۔ جسٹس سر ایڈی نے اس کے ساتھ ساتھ اے آر وائے سے کہا کہ وہ وکلا کو قانونی فیس بھی ادا کرے گا۔

ماہر تعلیم سید عالم شاہ پر ہندوستانی شہری ہونے کا الزام

ماہر تعلیم سید عالم شاہ کو پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے ہندوستانی شہری کے طور پر اس وقت پیش کیا گیا جب انہوں نے دیگر سندھیوں کے ساتھ مل کر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

اس کے فوراً بعد سید عالم شاہ نے اے آر وائے کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ اے آر وائے پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ سید عالم شاہ نے احتجاج میں شمولیت اختیار کی اور جھوٹ بولا کہ وہ سندھی اور پاکستانی ہیں بلکہ وہ اصل میں ہندوستانی شہری ہیں اور پاکستان کے خلاف ہندوستان کی مذموم سازشوں میں حصہ لے رہے تھے۔

تاہم، بعد ازاں اے آر وائے نے ان سے معافی مانگی اور کہا کہ یہ الزامات درست نہیں تھے۔ سید عالم شاہ پاکستان کے شہری ہیں اور نیک نیتی سے مظاہرے میں شامل تھے کیونکہ وہ اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں فکرمند تھے۔ ہم کسی بھی زحمت کے لئے معذرت خواہ ہیں۔

گل بخاری کے خلاف FIA کے نوٹس کی جھوٹی خبر

گل بخاری نے فروری 2020 میں اے آر وائی کے ذریعے نشر کیے گئے ہتک اور توہین آمیز ریمارکس کے حوالے سے آف کام پر اپنی ہتک عزت کی شکایت کی تھی۔

زیر بحث نشریات کے دوران، اے آر وائی نے اپنے رپورٹر ذوالقرنین حیدر کی ایک بریکنگ خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ "قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اکسانے کا معاملہ میں ایف آئی اے کو حرکت میں لایا گیا ہے اور ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے گل بخاری کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ اے آر وائی کے رپورٹر نے بتایا کہ گل بخاری کے پاس ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کے لیے 30 دن ہیں۔

رپورٹر نے مزید کہا، "خود کو پیش نہ کرنے کی صورت میں گل بخاری کے خلاف انسداد دہشت گردی [قوانین] کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ عدالتی حکم کے بعد ایک معاہدے کے تحت محترمہ گل بخاری کو وطن واپس لایا جائے گا، انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا اور ان کی جائیداد بھی ضبط جا سکتی ہے۔

گل بخاری نے اس خبر کی تردید کی کہ انہیں ایف آئی اے نے نوٹس بھیجا تھا اور بیان دیا کہ ان ‘بے بنیاد’ بیانات نے انہیں دہشت گردی اور تشدد میں ملوث ہونے کے طور پر غیر منصفانہ طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے خاندان کو جھوٹی رپورٹ کے بعد دھمکیاں دی گئی تھیں۔

جنوری 2020 میں گل بخاری نے برطانیہ میں اے آر وائی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔

گل بخاری کے اے آر وائی نیوز کے ہتک عزت کیس میں یوکے میڈیا ریگولیٹری باڈی آف کام نے فیصلہ دیا کہ اے آر وائی کے یوکے چینل، نیو ویژن ٹیلی ویژن (این وی ٹی وی) نے گل بخاری کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے نوٹس کی جھوٹی خبریں چلائی تھیں۔