بچپن میں پڑھا تھا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، اب بچپن تو بچپن ہوتا ہے، انسان کچھ بھی سن کر اس پر یقین کر لیتا ہے, سو میں نے بھی کر لیا۔ مگر آج جو بیٹھ کر سوچوں تو صرف چند جملے ہی ذہن میں گردش کرتے ہیں۔
جملے کچھ یوں ہیں:
مبارک ہو! بیٹا ہوا ہے۔
اللہ کی مرضی بہن! بیٹی ہے۔
ارے شہزادہ آیا ہے! ہر چیز اچھی والی لیں گے۔
ارے بڑی بہن کے چھوٹے کپڑے پہنا دو، کیا نئے کپڑوں پر پیسے ضائع کرنے۔
میرا بیٹا! فیل ہو گیا تو کیا ہوا، ہم سکول بدل کر نئی جماعت میں داخل کروا دیتے ہیں۔
ارے فرسٹ ہی تو آئی ہے! کیا سرخاب کے پر لگ گئے، کرنا تو وہی چولہا چوکھا ہے تجھے۔
ارے جو میرے بیٹے کی پسند، وہی میری پسند۔
پسند کی شادی، پاگل ہو گئی، ہماری عزت کو بٹا لگائے گی کیا؟
میں تو اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن ڈھونڈوں گی، کچی سی عمر کی۔
ارے مرد کی شکل اور عمر کون دیکھتا ہے، کماتا ہے بہت ہے۔
گھر کا مرد آیا ہے، جلدی اُٹھ! ہاتھ پاؤں دبا۔
گرم روٹی ڈال منحوس، تھوڑا بخار ہی تو ہے، مر تو نہیں گئی، اٹھ کام کر لے تھوڑا سا۔
ارے بیٹا! نہیں پسند تو تین حرف بھیج یا دوسری کر لے۔
خلع! نام بھی لیا تو گلا دبا دوں گی، میری تربیت پر حرف نہیں آنا چاہیے۔
ایسے بیشمار جملے متوسط طبقے کے گھروں میں تو اکثر سننے کو ملیں گے، اور سب سے زیادہ جو چیز دل چیرتی ہے وہ یہ کہ یہ جملے ایک عورت بول رہی ہوتی ہے، ایک ماں بول رہی ہوتی ہے، ویسے تو خواتین کے ساتھ ناروا سلوک زندگی کے ہر شعبے میں ہی رکھا جاتا ہے مگر جب خانگی زندگی کی بات ہو، تو یہ فرق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
ایک ماں خود اپنی بیٹی کو جب گھر بچانے کے لیے خاموشی سے گالی یا زیادتی سہنے کا سبق پڑھاتی ہے، صبر سے دن کاٹ لو، ایک دن وقت بدل جائے گا یا پھر یہ کہ مرد تو گالی دیتے ہی ہیں۔ مارتے ہی ہیں۔ یہ سب کہتے ہوئے کیا ایک ماں واقعی ماں رہتی ہے۔ کیا کوئی بچی یہ ذہن میں لے کر پیدا ہوتی ہے کہ مجھے اس دنیا میں ایک کمتر مقام دے کر بھیجا گیا ہے۔
نہیں! یہ وہ فرق ہے جو پہلے دن سے معاشرہ اور ماں اس کے ذہن میں ڈال دیتے ہیں، ہمارے ہاں ماں ہمیشہ قربانی اور ممتا کا ایک نہ ٹوٹ پانے والا بت بنا کر پیش کی گئی۔ آج لگتا ہے شاید یہ بھی معاشرے اور مرد کی ایک چال تھی، ماں ہمیشہ بچوں کے لیے ایک غلط اور برے تعلق کو خاموشی سے سہتے ہوئے دن بدلنے کی دعا کیوں کرے، اگر وہ سچ میں ماں ہے، تو یہ کیوں نہیں سوچتی کہ اس گھر میں خاموشی سے مار کھا کر، اور اپنے بچوں کو تیسرے درجے کا شہری بنا کر، گھر بچانے سے بہتر ہے، میں اپنے بچوں کو بچا لوں۔ دو نامناسب لڑتے جھگڑتے والدین سے بہتر ہے ایک ماں ہو، جو ان کے سامنے اپنی اور ان کی زندگی بنانے کے لیے معاشرے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو۔ کوئی ماں کیسے اپنی بچی کو اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی پر سر جھکانا سکھا سکتی ہے، ماں تو وہی ہے جو ہر رشتے کے سامنے ڈٹ جائے مگر اپنے بچوں پر آنچ نہ آنے دے، کسی بھی گھر کے وجود سے زیادہ جسے اپنی بچی کی عزت نفس اور انا عزیز ہو۔
شاید ہماری ماؤں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے، دوبارہ سے بیٹھ کر ماں اور ممتا کے فرائض کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اسے یہجاننے کی ضرورت ہے کہ اپنی بچی کو یہ سکھانا کہ کوئی رشتہ بھی آپ کی عزت سے اوپر نہیں ہے۔ بہت ضروری ہے، اپنی بچی کو سر جھکائے بہترین بہو بننے کی تربیت دینے سے زیادہ ضروری، سر اٹھا کر زندگی اور معاشرے میں چلنا سکھانا ضروری ہے۔ اگر کبھی غلطی سے اسے زندگی کا مقصد صرف شادی اور بچے سکھا بھی دیا تھا تو آج یہ بتانا ضروری ہے کہ شادی زندگی کا حصہ ہے۔ پوری زندگی نہیں، تم خود ایک مکمل اور خوبصورت انسان ہو، جسے کسی ساتھ کی خواہش ہونا تو فطری ہے۔ مگر وہ ساتھ تمہاری عزت نفس سے بڑھ کر قیمت نہیں رکھتا۔
اس معاشرے میں، جہاں پہلے دن سے بچیاں دوسرے درجے کے شہری ہوتی ہیں ان کو برابری کی سطح پر کھڑے ہونے میں مدد دینا، بہت ضروری ہے۔ اور ہاں اگر اپ کو لگتا ہے کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ یہ برتری کا سلوک کر کے اپ ان کے ساتھ کوئی بھلائی کر رہی ہیں تو یہ بھی آپ کی بھول ہے۔ ایک ایسا انسان جسے پہلے دن سے یہ سبق پڑھا دیا ہو کہ تم برتر ہو کیوں؟ کیوں کہ تم مرد ہو، تو وہ اس معاشرے کا صرف مرد ہونے پر فخر کرنے والا اندر سے خالی، شخص ہو گا۔ جسے آرام سے احساس برتری، جہالت اور معاشرے کا مردانگی کا جھوٹا تصور آ کر بھر دے گا، اسے یہ تعلیم دینا کہ آپ مرد ہیں یہ فخر نہیں ذمہ داری ہے، اس معاشرے میں جہاں ہر کوئی عورت کو نیچا کر کے فخر محسوس کرتا ہے، عورت کو مان اور آگے بڑھنے میں ساتھ دینا ہر رشتے میں آپ کا فرض ہے، اگر آپ اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا نہیں کر سکتیں، تو آپ اس معاشرے کے اصولوں سے ہاری، ایک اچھی بہو اور تابعدار بیوی تو ہو سکتی ہیں۔ ایک ماں نہیں کیونکہ ماں صرف وہی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کے سر اٹھا کر جینے کے حق کے لیے معاشرے کے جہنم سے ننگے پاؤں گزرنے کا حوصلہ رکھے، جس کے لیے اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانا، اچھا رشتہ نبھانے سے زیادہ ضروری ہو، ورنہ تو بچے ایک دن کہیں گے کہ آپ لوگوں کی نظروں میں، معاشرے کی نظر میں صیح کرتے کرتے ہمارے ساتھ بہت غلط کر گئیں۔