شاہراہِ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ سمیت متعدد اہم سرکاری عمارات واقع ہیں۔
پولیس کی جانب سے 2 درجن وفاقی ملازمین کو 16 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز وہاں سے گزرے تو مظاہرین نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔
پولیس کی جانب سے 50 کے قریب ملازمین کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمے کا اندراج نہیں کیا جائے گا۔
مظاہرین نے سیکریٹریٹ کے دروازے کھول کر پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا، جس پر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی گئی۔
ملازمین نے آنسو گیس شیلنگ کے جواب میں پولیس پر پتھراؤ کیا اور نعرے بازی بھی کی، پولیس کی جانب سے دھرنے کے متعدد شرکاء کو گرفتار کیا گیا۔
رینجرز نے مداخلت کر کے سرکاری ملازمین کو دوبارہ سیکریٹریٹ میں دھکیل کر سیکریٹریٹ کے دروازے بند کر دیئے۔
سرکاری ملازمین بڑی تعداد میں مرکزی سیکریٹریٹ میں موجود ہیں جہاں سے وہ نعرے بازی کر رہے ہیں جبکہ کچھ افراد لاؤڈ اسپیکر پر مظاہرین سے خطاب بھی کر رہے ہیں۔
سرکاری ملازمین کے دھرنے میں شرکت کے لیے پاکستان بھر سے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی اسلام آباد پریس کلب پہنچ گئیں۔
سرکاری ملازمین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مطالبات کی منظوری تک دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز آزاد کشمیر اور گلگت سمیت پاکستان بھرسے آئی ہیں، جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں مستقل کیا جائےاور پنشن دی جائے۔
پولیس کی جانب سے شاہراہِ دستور اور اطراف کے علاقوں کو پہلے ہی کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا جبکہ علاقے میں پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی موجود ہے۔
پولیس اب تک 50 کے قریب سرکاری ملازمین کو حراست میں لے چکی ہے، جبکہ سرکاری ملازمین کی مرکزی قیادت کو پہلے ہی حراست میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے اس وقت مظاہرین قیادت سے محروم ہیں اور ان کی رہنمائی کرنے کے لیے کوئی رہنما موجود نہیں ہے۔دوسری جانب حکومت کی طرف سے کسی وزیر یا عہدے دار نے سرکاری ملازمین سے مل کر ان کے مطالبات سننے اور مذاکرات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔