سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کیلئے عمران خان کو اقتدار سے نکالنا کوئی مشکل نہیں، اس کیلئے تمام تیاریاں کر لی گئیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے کم از کم 26 بندے ان کیساتھ ہیں لیکن لگتا ہے صرف چہرہ تبدیل ہوگا۔ ملکی مسائل جوں کے توں رہیں گے، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا سرے سے کوئی پلان ہی نہیں ہے۔
حامد میر نے آج نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں خصوصی شرکت کی اور رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی کے کاٹ دار سوالوں کا جواب دیا۔
رضا رومی نے حامد میر سے سوال کیا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان کے بیرونی اور اندرونی مسائل ٹھیک ہو جائیں گے؟
اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی حکومت میں بہت ہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ میں اس سوال پر بطور صحافی نہیں بلکہ وارث میر کے بیٹے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں کہ مجھے اس حکومت نے بہت تکلیف پہنچائی۔ میرے چھوٹے بھائی کو پی ٹی وی سے نکالا گیا۔ اس کے بعد عامر میر پر صحافت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ لاہور میں میرے والد کے نام سے منسوب انڈر پاس کا ناصرف نام تبدیل کیا گیا بلکہ فیاض الحسن چوہان نے ان پر گھٹیا اور بے سروپا الزامات لگائے۔ ایف بی آر کی طرف سے مجھے جعلی اور جھوٹے نوٹسز دیئے گئے۔ پھر مجھ پر پابندی لگا دی۔ عامر میر کو گرفتار کرا دیا گیا۔ مجھ پر بغاوت کے مقدمے قائم کرائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ میرے ساتھ اور میری فیملی کیساتھ کیا گیا وہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا بدلہ میرا اللہ لے گا۔ مجھے ان سے کسی قسم کی کوئی ہمدردری نہیں ہے۔ تاہم ان تمام چیزوں کے باوجود میرا یہ ماننا ہے کہ اگر اپوزیشن عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے نکلی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان کو بچانا ہے تو پھر ہمارے سامنے کوئی ایجنڈا تو پیش کریں کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ سینئر صحافی نے کہا کہ صرف چہرہ بدلنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمیں کوئی لائن آف ایکشن یا پروگرام نہیں دیا جا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ میری انفارمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے لگ بھگ 22 بندے ن لیگ میں جائیں گے۔ دو، تین جے یو آئی جبکہ اتنی ہی تعداد میں پیپلز پارٹی جائیں گے۔ اپوزیشن کے پاس کم از کم 26 فیصد زائد ووٹ ہیں۔ عمران خان کیلئے شدید مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ عمران خان کو ہٹانا ان کیلئے کوئی بڑا ٹاسک نہیں ہے۔ بڑا ٹاسک تو یہ ہے کہ یہ کیا پاکستان کی معیشت کو سنبھال پائیں گے؟ تو اس کا جواب ہمیں نہیں دیا جا رہا۔
تحریک عدم اعتماد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ باتیں کافی عرصے سے کی جا رہی ہیں لیکن اس معاملے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلاف تھا۔ پیپلز پارٹی کہتی تھی عدم اعتماد لائی جائے جبکہ ن لیگ اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتی تھی۔ اے این پی اس معاملے میں پیپلز پارٹی کیساتھ تھی جبکہ کئی اور جماعتوں نے بھی اس کی تائید کی تھی لیکن مسلم لیگ ن سمجھتی تھی کہ اسمبلیوں سے استعفے اور لانگ مارچ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ پھر ہوا یہ دونوں پارٹیوں میں اختلافات اس قدر شدید ہو گئے کہ انہوں نے اسے زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے باہر آ گئی۔
انہوں نے کہا کہ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انھیں احساس ہوا کہ ہمارے آپس کے اختلافات کا عمران خان فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لئے بیک ڈور چینل رابطے شروع کرکے طے کیا گیا کہ عمران خان کو نکالنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے، اس لئے انہوں نے حکومت کیخلاف عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
انہوں نے اندر کی بات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جلد لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی کچھ چیزیں طے ہونا باقی ہیں جن میں اگلے وزیراعظم کے نام پر اتفاق اور آئندہ الیکشن کے وقت کا تعین ہے۔ یہ تمام چیزیں جس دن طے ہوگئی عدم اعتماد بھی آ جائے گی۔ یہ اقدام اسی وقت اٹھایا جائے گا جب دونوں جماعتوں کو یقین ہوگا کہ ہماری نمبرز گیم پوری ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے حامد میر سے پوچھا کہ آپ نے اپنے تجزیے میں ن لیگ اور پی پی پی کے متحد ہونے کی وجوہات میں عمران خان کے سر سے دست شفقت ہٹ جانا اور دونوں جماعتوں کیخلاف کیسوں کو قرار دیا ہے، تاہم یہ بتائیں کہ ان دونوں میں سے بڑی وجہ کیا ہے؟
اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ سولنگی صاحب مجھے پتا تھا کہ آپ مجھ سے ایسا سوال کریں گے جس کا جواب دینا میرے لئے مشکل ہوگا۔ تاہم میں اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے سوال کے دو پہلو ہیں۔ اس کی وجہ ٹیکنیکل اور سیاسی ہے۔ ٹیکنیکل پہلو یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق تو اسٹیبلشمنٹ کو حکومت کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے۔ وہ آئین اور قانون کی پابند ہے اور اس کی کسی صورت خلاف ورزی نہیں کر سکتی لیکن پاکستانی سیاست کے حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔
حامد میر نے کہا کہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال بڑی دلچسپ ہو چکی ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہے اور حکومت کیساتھ ہے جبکہ اتحادی جماعت ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں بلکہ آج بھی عمران خان کے ہی ساتھ ہے۔ دوسری جانب وہ جماعتیں جو عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہیں وہ بند کمروں ہاتھ ہلا ہلا کر اور انگلی گھما گھما کر ہمیں کہتے ہیں، '' او پا جی، اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو گئی جے'' حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان تک مجھے کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے، اب میری ایسی مجال کہاں کہ میں انھیں اس بات پر چیلنج کروں۔
رضا رومی نے حامد میر سے سوال کیا کہ آپ انفارمیشن اکھٹی کرکے اس پر اپنا تجزیہ کرنے کے ماہر صحافی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال پر آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل ہو چکی ہے یا اس کا سفر اس جانب جاری ہے؟
اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس جانب اشارہ ہیں کہ ماضی کی طرح اب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہو رہی۔ لیکن یہاں کامل علی آغا کی بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں لیکن اس کے دوسرے ہی دن الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو نااہل کر دیا۔
حامد میر نے کہا کہ یہی سوال میں نے مسلم لیگ ق کے ایک اہم رہنما کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا تھا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل نہیں تو فیصل واوڈا صاحب کس طرح نااہل ہو گئے؟ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ فیصل واوڈا کی نااہلی اور خیبر پختونخوا بلدیاتی الیکشن جانب اشارہ ہیں کہ اسٹیبشلمنٹ پیچھے ہٹ چکی ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن کے ایک بہت سینئر رہنما جو اس ساری صورتحال سے کافی ڈسٹرب لگ رہے ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اگر واقعی اسٹیبشلمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے تو پھر سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، اس کیلئے تو لوگوں کو فون کئے گئے تھے۔
انہوں نے پروگرام کے دوران ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک ن لیگی رہنما کیساتھ پارلیمنٹ لاجز میں بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے فون اٹھا کر کسی سے کہا کہ میرے پاس آئیں، میں نے اپنے دوست سے آپ کو ملوانا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں جو شخص وہاں آیا وہ پی ٹی آئی کا ایم این اے تھا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے دو اور اراکین بھی تشریف لے آئے۔ ان تینوں ایم این ایز نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ یہ بل منظور نہ ہو، اس مقصد کیلئے ہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس گئے کہ اسے منظور نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم کس منہ سے اپنے ووٹرز کے پاس جائیں گے۔ تاہم لیگی رہنما نے کہا کہ ہماری لیڈرشپ نے کہہ دیا تھا کہ یہ بل پاس کرانا ہے۔
حامد میر نے کہا مجھے ان بلوں کے پاس ہونے پر تحفظات ہیں۔ یہ بات میں نے آصف علی زرداری صاحب اور ن لیگ کے سینئر رہنمائوں سے بھی کی تھی کہ آپ عمران خان کو نکالنا چاہتے ہیں، 100 دفعہ یہ کام کریں لیکن خدارا یہ تو بتائیں کہ کیا حکومت سنبھالنے کے بعد آپ آئی ایم ایف کی ڈیل کو منسوخ کریں گے یا مہنگائی ختم ہوگی؟ تو اس کا دونوں جماعتوں کے قائدین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صرف یہی کہتے جا رہے ہیں کہ پاکستان ڈوب رہا ہے، ہمیں اس کو بچانا ہے۔ عمران خان کو نکالو باقی باتیں بعد میں دیکھ لیں گے۔