نواز شریف نے 9 فروری کو اپنی 'وکٹری' سپیچ کے آخر میں اعلان کیا کہ انہوں نے شہباز شریف کو کہہ دیا ہے کہ وہ زرداری صاحب سے ملاقات کریں اور حکومت بنانے کے سلسلے میں پیش رفت کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ دھاندلی بلکہ دھاندلے کے الزامات ایک طرف، مسلم لیگ ن کا موجودہ مینڈیٹ زیادہ سے زیادہ اپوزیشن میں بیٹھنے کا مینڈیٹ ہے۔ لیکن اسے پھر اقتدر میں آنے کی جلدی ہے اور اس کی خاطر یہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی سے شراکت داری کے لئے پر تول رہی ہے۔
8 فروری کو این اے 130 میں الیکشن کے لئے گھر والوں کو لے کر پولنگ سٹیشن پر گیا تو یہاں کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات بھی ہو گئی۔ ان میں سے ایک میرے انگریزی کے استاد تھے جن کے لئے میرے دل میں ماسوائے احترام اور محبت کے کچھ بھی نہیں۔ ان سے آخری ملاقات بھی اتفاقاً 2013 میں الیکشن کی پرچی بنواتے ہی ہوئی تھی۔ اس بار پھر پولنگ سٹیشن کے باہر ملاقات ہو گئی۔ 11 مئی 2013 کو وہ اپنے بیمار والد کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ میں نے پوچھا سر کس کو ووٹ ڈالیں گے۔ بولے شیر کو۔ ہمیشہ شیر کے سپورٹر رہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے۔
بیٹا ابھی ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن کے اندر گیا ہوا تھا۔ میری والدہ خواتین کی لائن میں لگی ہوئی تھیں۔ اس دوران کچھ PTI سپورٹرز سے پوچھا وہ کیوں پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں تو کچھ جوابات نے بڑا حیران کیا۔ مثال کے طور پر ایک صاحب نے بتایا کہ کئی سال سے ان کے علاقے میں گلیاں نہیں بنیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ 5 سال PTI پنجاب پر حکمران تھی تو اس بنیاد پر تو انہیں اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالنا چاہیے۔ اسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ ن لیگ کے دور میں لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی اتنی بڑھ گئی کہ پاکستان سے تمام انڈسٹری بنگلہ دیش چلی گئی۔ میں نے انہیں کریدنے کی غرض سے بتایا کہ ن لیگ کے مطابق تو انہوں نے ہزاروں میگا واٹ بجلی گرڈ میں شامل کی ہے اور وہ تو سی پیک کو پاکستان لائے۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ انہی کے دور میں غلام احمد بلور نے ریلوے کا کباڑا کر دیا کیونکہ وہ ٹرک مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ میں نے کہا ن لیگ کے دور میں تو خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے تھے، بلور صاحب پیپلز پارٹی دور میں ان کے اتحادی تھے اور تبھی ریلوے کے وزیر بھی رہے تھے۔ جواب ملا باتوں میں پٹواریوں سے کون جیت سکتا ہے۔ یہ اشارہ تھا کہ بس اب آپ ہمارے دماغوں کو مزید زحمت نہ دیجیے۔ میں نے فوراً یہ اشارہ پڑھ لیا اور موضوع بدل دیا۔
شاید کچھ دیر یہ مکالمہ مزید جاری رہتا تو ہمارے پاس ڈیٹا زیادہ ہوتا اور ہمیں ایک عام شہری کی جانب سے PTI کو ملنے والی بے انتہا حمایت کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوتی لیکن اس مختصر سے تبادلہ خیالات سے جو نتائج میں نے برآمد کیے وہ کم از کم میرے لئے تو بڑے دلچسپ ہیں۔
اول تو یہ کہ لوگوں کا حافظہ اتنا مضبوط نہیں ہوتا کہ وہ پرانی پرانی باتیں باقاعدہ تاریخوں اور سالوں کے ساتھ یاد رکھتے ہوں۔ انہیں یہ یاد ہے کہ عمران خان دور سے پہلے ایک دور تھا جب پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، دہشتگردی ہوتی تھی اور نواز شریف ہوتا تھا۔ انہوں نے کہیں یہ پڑھ رکھا ہے کہ غلام احمد بلور ٹرک مافیا کی پشت پناہی کرتا تھا۔ کسی نا کسی ذریعے سے ان تک یہ صحیح یا غلط معلومات بھی آئی ہیں کہ ایک دور میں پاکستان سے انڈسٹری بنگلہ دیش شفٹ ہو گئی تھی اور اس کے پیچھے محرکات میں لوڈ شیڈنگ یا دہشتگردی جیسی کوئی چیز بھی موجود تھی۔
ایک طرف رکھیے اس حقیقت کو کہ لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی دونوں پرویز مشرف دور کی دین تھیں اور دونوں کو ختم کرنے کے لئے گذشتہ 15 برس میں اگر کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے تو وہ نواز شریف دور میں ہی ہوئی ہے۔ لوگوں کو اتنی پرانی تکالیف یاد نہیں رہتیں۔ ان کے حل دینے والے بھی یاد نہیں رہتے۔
تو ایک تو نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ ن کے پاس کوئی نئی بات کہنے کے لئے تھی نہیں۔ انقلاب اور بیانیے کی جنگ اس کے بس کی بات نہیں لیکن اپنا ڈلیوری کا ٹریک ریکارڈ لوگوں کے سامنے لانے میں بھی یہ ناکام رہی اور کوئی نیا وعدہ بھی نہیں کیا۔ چند روز قبل سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے ایک صحافیوں کی ملاقات میں ان سے یہ سوال کیا تھا کہ 2013 میں زبیر عمر صاحب نے ایک نجی گفتگو میں میرے سامنے کہا تھا کہ اگر ہم عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئے کہ ہم حکومت میں آ کر لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے تو ہم الیکشن جیت جائیں گے، اس بار آپ نے وہ ایک نکاتی ایجنڈا کیا رکھا ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ہم نے نوجوانوں کے لئے کچھ کرنا ہے، نوکریاں دینی ہیں، ان کی حالتِ زار کو بہتر بنانا ہے۔
میرے خیال میں یہ بات عمران خان کہتے تو لوگ مان لیتے۔ شہباز شریف سے ان کا سپورٹر کوئی مخصوص ٹارگٹ کا تقاضہ کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہم ایک سال کے اندر اندر لاہور میں سموگ ختم کریں گے یا ملک بھر میں سولر پینل سستے کر کے لوگوں کی بجلی کے بلوں سے جان چھڑائیں گے (جو کہ ان کے منشور کا حصہ ہے) تو شاید اس سنجیدہ وعدے کی بنیاد پر وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر پاتے۔ لیکن یہ خوابوں خیالوں کی باتیں عمران خان پر جچتی ہیں، شہباز شریف پر نہیں۔
دوسرا نتیجہ میں نے یہ اخذ کیا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اکٹھے سیاست کرتے اب قریب 4 سال ہو گئے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم 2020 میں وجود میں آیا تھا اور کسی نا کسی شکل میں اب بھی برقرار ہی ہے۔ کم از کم عوام کے دماغوں میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر ایک ہی ہیں۔ وہ عمران خان کے 'مک مکا' والے بیانیے سے متاثر ہیں یا پھر ہر وقت ساتھ ساتھ نظر آنے کی مجبوری کہ شہباز شریف اب نواز شریف سے زیادہ زرداری کے بھائی اور مریم حمزہ سے زیادہ بلاول کی کزن لگنے لگی ہیں۔
اب جنگِ الیکشن 2024 میں شکست کے اسباب پر تفصیلی مقالہ تو ن لیگی قیادت کو چاہیے کہ اپنے کسی 'تھنک ٹینک' سے لکھوائے لیکن اس مختصر دورانیے کے چلتے پھرتے انصافی ووٹرز سے مکالمے میں جو مجھے سمجھ آیا اس کی روشنی میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو مستقبل کے خواب دکھائیں، ماضی میں آپ کو کن مظالم کا سامنا رہا اس میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں شراکت داری خودکشی سے کم نہیں ہوگی۔