سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں میرے لیے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں۔ طویل غور و فکر کے بعد میں نے بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

مس کنڈکٹ کی شکایات کا سامنے کرنے والےجسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے استعفے کے متن میں کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی کہ میں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں میرے لیے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں۔ طویل غور و فکر کے بعد میں نے بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانونی تقاضے پورے کئے جانے کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ مجھے درپیش حالات عوام کے علم میں ہیں اور ریکارڈ کا بھی حصہ ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا ہے۔ صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں دو ججز کی آسامیاں خالی ہو جائیں گی۔

استعفے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی اب پینشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوسکتے ہیں۔ اگر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو مس کنڈکٹ پر ہٹاتی تو پینشن اور دیگر مراعات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔

شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب

سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج نے جواب میں اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کو مسترد کیا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے جواب میں کہا ہے  کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے۔ کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی۔   سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری احکامات رولز کی توہین کے مترادف ہیں۔ رولز کے مطابق کونسل کو معلومات دینے والے کا کارروائی میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کی بطور پراسیکیوٹر تعیناتی پر بھی اعتراض عائد کیا ہے۔ جمع کرائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ہے کہ کونسل میں ایک شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل بھی ہے۔ اٹارنی جنرل شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ  بار کونسلز کی شکایات سیاسی اور پی ڈی ایم حکومت کی ایما پر دائر کی گئی ہیں۔  پاکستان بار کی 21 فروری کو اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔ شہباز شریف سے ملاقات کے روز ہی پاکستان بار نے شکایت دائر کرنے کی قرارداد منظور کی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ شوکاز کا جواب جمع کرانے سے پہلے ہی گواہان کو طلب کرنے کا حکم خلافِ قانون ہے۔  یہ الزام سراسر غلط ہے کہ مجھ سے کوئی بھی شخص باآسانی رجوع کر سکتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ غلام محمود ڈوگر کیس خود اپنے سامنے مقرر کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ انتظامی معاملہ ہے، غلام محمود ڈوگر کیس میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دیا تھا

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کینٹ میں خریدا گیا گھر ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا ہے۔ ایس ٹی جونز پارک والے گھر کی قیمت کا تخمینہ ڈی سی ریٹ کے مطابق لگایا گیا تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، نہ ہی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا۔

انہوں نے جمع کرائے گئے جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایات خارج کرنے اور کارروائی ختم کرنے کی استدعا کی ۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

 جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی۔

خیال رہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے اپنے خلاف ریفرنس کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے دوسرے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کروایا تھا۔ جوڈیشل کونسل میں جمع کروائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف شکایات بے بنیاد ہیں۔ کھلی عدالت میں آئینی درخواستیں زیر سماعت ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی بلاجواز ہے۔