بدترین آمر جنرل ضیا کا دور ختم ہوئے کئی دہائیاں گزر گئیں۔ گیارہ سالہ بدترین دور آمریت کے دوران پیپلزپارٹی کے بانی قائد کوپھانسی چڑھا دیا گیا، پیپلزپارٹی کے رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو قید و بند، پھانسیوں، کوڑوں اور ہر طرح کی آزمائش سے گزارا گیا لیکن پیپلزپارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا، سیاست آج بھی بھٹو اور اینٹی بھٹو کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین بھی اگرکسی کو آئیڈیلایز کرتے ہیں اور موازنہ کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی کے بھٹو اور بے نظیر سے کرتے ہیں۔ بطور جماعت پیپلزپارٹی اور اسکے قائدین کی جدوجہد کی ایک تاریخ ہے جس کا موازنہ پاکستان کی کسی اور سیاسی جماعت سے نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلزپارٹی کےقائدین نے جانیں قربان کر دیں لیکن نہ تو کبھی عوام کے حقوق پر سمجھوتہ کیا اور نہ کبھی جمہوری اصولوں اور آزادیوں پر آنچ آنےدی۔ تین آمریتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد سے پیپلزپارٹی نے جو تاریخ رقم کی ہے وہ سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
آج بہت سے نئے نئے انقلابی بھی پیدا ہو چکے ہیں جنہوں نے کبھی انگلی کٹوا کر نہیں دیکھی لیکن خود کو چی گویرا سے کم نہیں سمجھتے،جن کو اگر جیل جانا پڑ جائے تو ان کی چیخیں سننے والی ہوتی ہیں اور جیل جاتے ہی ان کی ڈیل کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں، زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں ٹوئیٹر خاموش ہو جاتے ہیں لیکن ڈیل ہو جانے کے بعد جونہی ان کا جہاز پاکستان کی حدود سے باہرنکلتا ہے یہ پھر انقلابی بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ انقلابی اتنے خوش قسمت ہیں کہ سزا یافتہ ہونے کے باوجود ان کا جرم معاف کر کےمحفوظ راستہ فراہم کر دیا جاتا ہے۔ ایسی سہولت ان نوزائیدہ انقلابیوں کے سوا کسی اور کو کبھی میسر نہیں ہو سکی۔ اس کے مقابلےمیں پیپلزپارٹی کو کوئی سہولت تو درکنار کبھی انصاف بھی نہیں مل سکا۔ ستم بالائے ستم یہ نئے نویلے بونے انقلابی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا الزام بھی اس پیپلزپارٹی پر لگاتے ہیں جس کو پچاس سال ہو گئے اسٹیبلشمنٹ سے لڑتے ہوئے، جو دو دفعہ اپنی قیادت گنواچکی ہے، جس کے جیتے ہوئے الیکشن چھین لئے جاتے رہے تاکہ کوئی لاڈلہ وزیراعظم بن سکے، اصغر خان کیس جس میں الیکشن چرانے والے خود اپنے منہ سے اپنا جُرم قبول کر چکے لیکن کیا بنا اس کیس کا؟ یہ کیس آج بھی سپریم کورٹ کے کسی کونے کھدرے میں پڑا سسک رہا ہے جبکہ اس سارے معاملے کا بینیفشری جس کو یہ الیکشن چرا کر دو تہائی اکثریت والا وزیراعظم بنایا گیا وہ آج کہتا ہے کہ اس جیسا انقلابی کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس نام نہاد انقلابی کا جرم ہر دفعہ معاف کیوں کر دیا جاتا ہے؟ اس کے کریڈٹ پر چند سڑکوں، پلوں کےعلاوہ کچھ بھی نہیں ہے جبکہ اس کو جب بھی نکالا گیا اس نے اپنے لانے والوں کو گالیاں دیں، اداروں کو برا بھلا کہا کبھی کہا ڈکٹیشن نہیں لوں گا لیکن ہمیشہ ڈکٹیشن لی۔ جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی جس کا سب کچھ چھین لیا گیا لیکن کبھی اداروں کے خلاف بات نہیں کی ان اداروں کو قومی ادارہ سمجھا اور جب بھی بات کی صرف ان اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بات کی، اس مائینڈ سیٹ کے خلاف بات کی جو جمہوریت کو اس ملک میں پنپنے نہیں دے رہا۔ پیپلزپارٹی کو کبھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ پیپلزپارٹی نے عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید ہمیشہ کی لیکن کبھی عدلیہ پر حملہ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ مقدم رکھا سترہ سیٹوں کے ساتھ بھی پارلیمان کو ہی سپریم سمجھا کبھی پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کیا۔ اس ملک کو آئین دیا، ایٹم بم دیا جس کے بل بوتے پر سب اترائے پھرتے ہیں، میزائل ٹیکنالوجی جس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار ہے یہ بھی ان لوگوں نے ہی دی جن کو سیکیورٹی رسک قراردیا گیا۔ سی پیک، تھر کول اور بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام جیسے پراجیکٹ بھی اسی پیپلزپارٹی نے دئیے، پیپلزپارٹی کا جرم اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ بھی ٹھہرا ہے، پختونوں کو شناخت دینا، گلگت بلتستان والوں کو صوبہ دینا، بلوچستان والوں کو آغازحقوق بلوچستان پروگرام دینا اور دوسروں کے کئے گیے گناہوں پر بلوچ عوام سے معافی مانگنا یقیناً پیپلزپارٹی کے ناقابل معافی جرائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا جرم معاف ہی نہیں کیا جا رہا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیوں 1977 سے لے کر اب تک پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں بننے دی گئی؟ کیوں پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے الیکشن چرائے جاتے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جب آپ اٹھارویں ترمیم جیسی شرارتیں کریں گے، صوبائی خود مختاری کی بات کریں گے، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کریں گے، انسانی حقوق کی بات کریں گے، میڈیا کی آزادی کی بات کریں گے تو پھر سزا تو ملے گی جو پیپلزپارٹی کو مل رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہربار دو تہائی اکثریت سے آنے والوں کے کریڈٹ پر نہ کوئی آئینی اصلاحات ہیں، نہ صوبائی خود مختاری اور نہ انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی جیسا کوئی کریڈٹ۔ ان کے کریڈٹ پر چند سڑکیں اور عوام کو ادھر اُدھر کی باتوں میں لگا کر اور جھوٹے لالی پاپ دے کر سلائے رکھنے کا کریڈٹ ضرور ہے تاکہ عوام کو جعلی ترقی کا لالی پاپ دے کر ان کے بنیادی حقوق اور اصل مسائل کی جانب سے ان کی آنکھیں بند رکھی جائیں۔ یہی فرق ہے اصلی انقلابیوں اور جعلی بونے انقلابیوں میں۔ اور یہی پیپلزپارٹی کا اصل جرم بھی ہے جس کی معافی پیپلزپارٹی کو کبھی نہیں مل سکی۔
سابقہ لاڈلے اور موجودہ نام نہاد انقلابی کے بعد مستقبل میں ایک اور انقلابی بھی منظرعام پر ابھرتا نظر آ رہا ہے اور وہ ہے موجودہ لاڈلہ سلیکٹڈ وزیراعظم جو مقتدر قوتوں کی بھرپور آشیرباد سے اور آر ٹی ایس سسٹم کے بند ہونے کے بعد برسر اقتدار آیا اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی مقتدر قوتیں پوری طاقت کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑی ہیں لیکن کیا کیا جائے اس نااہلیت کا کہ تمام تر سپورٹ اور ایک پیج پر ہونے کے باوجود ناکامی ہے کہ اس سلیکٹڈ حکومت کا پیچھا چھوڑ ہی نہیں رہی۔ حکومت کی نہ کوئی سمت ہے نہ پالیسی اور نہ ہی تین سالوں میں یہ نااہل سلیکٹڈ حکومت کچھ ڈلیور کر سکی ہے۔ اس سلیکٹڈ حکومت کے کریڈٹ پر بھی چند لنگر خانوں اورتقریروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے لیکن چونکہ مقتدر قوتوں کا لاڈلہ اور سلیکٹڈ ہے اس لیے ستے ای خیراں ہیں اس کو بھی۔ لیکن یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جس دن اس کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے آقاؤں نے اپنا ہاتھ اس کے سر سے اٹھا لیا تو اسکی انقلاب کی دہائیاں بھی سننے والی ہوں گی، پہلے والا تو اپنے پرانے آقاؤں کے نام لیتا ہے جبکہ موجودہ سلیکٹڈ اور آئیندہ کا انقلابی کہانیاں بھی سنائے گا۔
ان نئے نئے انقلابیوں نے نظریاتی جدوجہد کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور نئی نسل کے لیے اتنی زیادہ کنفیوژن پیدا کر دی ہے کہ نہ صرف سچ اور جھوٹ کے فرق کو مٹا کر رکھ دیا ہے بلکہ نوجوان نسل کو بھی نظریے اور جدوجہد کے نام پر گمراہ کر دیا ہے۔۰ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی درست سمت کا ادراک کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے ذمہ دار نہ صرف یہ نئے نئے انقلابی ہیں بلکہ اس میں ایک بڑا کردار زرد لفافہ صحافت کا بھی ہے جو جھوٹ کو پھیلانے کا تیز ترین ذریعہ ہیں۔
ان نئے نئے بونے انقلابیوں نے قوم کو کبھی تبدیلی کے نام پر گمراہ کیا اور کبھی ووٹ کو عزت دو کے نام پر جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قوم نہ تو تبدیلی دیکھ سکی اور نہ ہی ووٹ کو عزت مل سکی۔ تبدیلی کے نام پر نااہل اور کرپٹ ترین مافیاز کو قوم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ان مافیاز نے معیشت سے لے کر خارجہ امور اور گورننس سے لے کر قانون و انصاف اور انسانی حقوق سمیت ہر شعبہ سلطنت میں وہ تباہی پھیر کر رکھ دی ہے کہ جس کی نظیر پچھلے ستر سالوں میں بھی نہیں ملتی۔ دوسری طرف ووٹ کو عزت دو والوں نے بھی کچھ کم نہیں کیا، ووٹ کو عزت دو کے نام پر ووٹ کو وہ ذلیل کیا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ جب ووٹ دینے کی ضرورت پڑے تو ووٹ دینے ہی نہ جائیں تو ووٹ کو عزت کیسے ملے گی؟ اس سے بڑی ووٹ کی توہین اور کیا ہو گی؟ ابھی حال ہی میں منظور ہونے والے وفاقی بجٹ کے موقع ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں کی جانب سے بجٹ منظوری کے موقع پر غیر حاضر رہ کر ووٹ کی جو توہین کی گئی ہے اس سے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ تو کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا