کس سے کہیں کہ تنخواہیں کم ہیں؟ ہم تو سوچتے تھے کہ قانونی طور پر ویج بورڈ کے ذریعے ہر 5 سال بعد ہماری تنخواہوں میں اضافہ ہو جانا ہے۔ افسوس ہے کہ جس فیلڈ میں سالوں لگا دیے وہاں آج بھی معاشی پریشانیوں نے ذہنی طور پر بے حال کر رکھا ہے۔ یہ کہنا ہے مقامی اردو اخبار سے تعلق رکھنے والے ناصر حسین ( فرضی نام) کا جنہوں نے صحافت کا آغاز 1992 میں نوائے وقت میں رپورٹر کے طور پر کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب پہلی تنخواہ آئی تو میرے دوست نے کہا کہ ویج بورڈ آنے والا ہے، پھر تنخواہ میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ میری نوکری اچھی ہے اور تنخواہ میں اضافہ قانون کے مطابق ہوتا رہے گا۔ افسوس کہ سسٹم اور قوانین ہونے کے باوجود ویج ورڈ کے ذریعے تنخواہوں میں اضافہ اخبار مالکان کی کاروباری سوچ کی بھینٹ چڑھ گیا جس سے صحافت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ لفافہ صحافی پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ معاشی بد حالی تھی جس سے صحافی کے لئے گھر کا چولھا جلانا مشکل ہو رہا تھا۔
آٹھویں ویج بورڈ کا اعلان 17 سال کی طویل مدت کے بعد دو مختلف حکومتوں نے کیا۔ سب سے پہلے 19 اپریل 2018 کو پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم اورنگزیب نے آٹھویں ویج بورڈ کا اعلان کیا تھا۔ دوسری بار 25 دسمبر 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے آٹھویں ویج بورڈ کا اعلان جسٹس ریٹائرڈ حسنات احمد کے ہمراہ کیا تھا۔ اس وقت کی اخباری خبروں کے مطابق یہ ایوارڈ مالکان کے نمائندوں اور اخباری ملازمین کے نمائندوں کے درمیان اتفاق رائے سے مکمل ہوا تھا۔ اس ایوارڈ کے تحت تنخواہوں اور الاؤنسز میں 145 فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ ایوارڈ پر عمل درآمد یکم فروری 2019 سے ہونا تھا۔ آٹھویں ویج ایوارڈ کے تحت صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا مگر صرف ان صحافیوں کی تنخواہوں میں جو پرمانینٹ ایمپلائز ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں ویسے ہی اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے جس کی ایک وجہ اخبارات کا بند ہونا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے شہروں میں بڑے اخبارات بند ہو رہے ہیں۔ پہلے چھوٹے شہروں میں تمام اخبارات کے دفاتر میں صحافی خبروں کو ضلعی سطح پر اکٹھا کرتے اور بعدازاں ہیڈ آفس میں خبروں کو بھیجا جاتا تھا۔ چھوٹے شہروں میں اخباروں کے دفاتر کا بند ہونا بے روزگاری کا سبب بنا۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ مگر الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے معاشی تحفظ کے لئے ابھی تک پاکستان میں کوئی قانون ہی نہیں بنا۔
ویج بورڈ کب اور کیوں بنایا گیا؟
معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹس کی اجرت کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ پہلی بار 1953 میں ورکنگ جرنلسٹس نے یہ مسئلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سامنے ایک قرارداد کی شکل میں پیش کیا جس پر حکومت نے ایک پریس کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن میں مختلف شرائط، صحافیوں کی تنخواہوں کی شرح اور کام کے حالات کی سفارش بھی شامل تھی۔ پریس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں صحافیوں کی تنخواہوں اور کام کے حالات کا جائزہ لینا اور سفارش کرنا بھی شامل تھا۔ کمیشن کی سربراہی ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس خورشید زمان نے کی۔ مارچ 1959 میں کمیشن نے اپنی تفصیلی رپورٹ اور سفارشات حکومت کو پیش کیں اور ورکنگ جرنلسٹس کی سروس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک قانون بنانے اور ورکنگ جرنلسٹس کی اجرتوں کی شرح کے تعین کے لیے ویج بورڈ بنانے پر زور دیا۔
ملک میں صحافیوں کی تنخواہوں کے تعین کے لیے پہلا ویج بورڈ 30 مئی 1960 کو قائم کیا گیا تھا جس کے چیئرمین مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس سجاد احمد جان تھے۔ اس بورڈ میں صرف ورکنگ صحافیوں کے لیے اجرتیں مقرر کی گئی تھیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر 5 سال بعد کم از کم اجرت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
11 ستمبر 1973 کو وفاقی حکومت نے دوسرے ویج بورڈ کی تشکیل نو کی اور مسٹر جسٹس ریٹائرڈ ایس ایم شفیع کو چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس بورڈ میں چار ارکان شامل تھے۔
تیسرا ویج بورڈ 24 جنوری 1979 کو تشکیل دیا گیا اور جسٹس (ر) محمد منیر فاروقی کو چیئرمین مقرر کیا گیا۔
چوتھا ویج بورڈ 4 اکتوبر 1984 کو تشکیل دیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس میاں فضل محمود کو چیئرمین مقرر کیا گیا۔
پانچواں ویج بورڈ 20 جولائی 1989 کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس (ر) آغا علی حیدر کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔
چھٹا ویج بورڈ 23 اکتوبر 1994 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس ضیاء محمود مرزا کی سربراہی میں وجود میں آیا جس میں 18 ارکان شامل تھے۔ اس ویج بورڈ نے بنیادی تنخواہ اور دیگر مراعات کے علاوہ کمپیوٹر سٹاف کے طور پر کام کرنے والے ملازمین کے لیے کمپیوٹر الاؤنس کا بھی اعلان کیا۔
ساتواں ویج بورڈ 8 جولائی 2000 کو تشکیل دیا گیا جس میں 10 ارکان شامل تھے۔ اخباری مالکان اور ملازمین کی نمائندگی 5 ارکان کر رہے تھے۔ جسٹس (ر) راجہ افراسیاب خان نے اکتوبر 2001 میں ایوارڈ کا اعلان کیا مگر اخباری مالکان نے حکم امتناع حاصل کر لیا اور ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کی تعمیل نہیں کی۔
پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران بگڑتی معاشی صورتِ حال نے صحافت کے پیشے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ ملک میں سینکڑوں صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ جن صحافیوں کو تنخواہ مل رہی ہے ان کی تنخواہوں میں کئی سال سے اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ چند سال میں قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں صحافیوں کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے جس کے اثرات ان کے کام پر بھی پڑتے ہیں۔
تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ سسٹم کیوں متعارف کروایا گیا؟
صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کو ان کے معاشی حقوق سے محروم رکھنے اور قانون سے بچنے کے لیے انہیں صحافتی اداروں کی جانب سے تھرڈ پارٹی کے ذریعے ملازمت کے لیٹر دیے جاتے ہیں۔ صحافیوں کے معاشی تحفظ کے لئے بنائے گئے ویج بورڈ کو نظرانداز کر کے تھرڈ پارٹی سسٹم کو اس لئے متعارف کروایا گیا کہ صحافیوں کے معاشی قتل پر اگر کوئی مقدمہ درج ہو تو عدالتوں کا سامنا کرنا تھرڈ پارٹی کی ذمہ داری ہو، صحافتی ادارے عدالتی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔
1987 میں روزنامہ جنگ سے بطور سب ایڈیٹر ملازمت کا آغاز کرنے والی فرح وڑائچ کا کہنا ہے کہ 1990 کی دہائی میں صحافیوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جانے لگا، اس سے پہلے اخباروں میں بھرتی ہونے والا ہر صحافی یا ورکر ریگولر بنیادوں پر بھرتی کیا جاتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری نظر میں تھرڈ پارٹی کے ذریعے بھرتیاں کرنے کی سب سے بڑی وجہ ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا جواز بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں یہ بتایا جاتا تھا کہ ریگولر سسٹم کے تحت بھرتی ہونے والے سوئپر کی تنخواہ 60 ہزار جبکہ کنٹریکٹ سسٹم کے تحت بھرتی ہونے رپورٹر اور ایڈیٹر کی تنخواہ 20 ہزار روپے ہے۔ عدالت بھی ان سے یہی کہتی تھی کہ صحافیوں کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے نہیں بلکہ ادارہ ریگولر کی بنیاد پر لیٹر دے تا کہ ہر 5 سال بعد ایک سسٹم کے تحت صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا رہے۔
نیوزپیپرز ایمپلائز ایکٹ 1973 کے تحت صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ دیا گیا جس کے تحت ایک مخصوص مدت یعنی 5 سال کے بعد ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ صحافیوں کو ملازمت کی سکیورٹی بھی اسی قانون کے تحت دی گئی جس میں واضح لکھا ہے کہ انہیں بغیر کسی وجہ کے ملازمت سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت صحافیوں کو میڈیکل الاؤنس، پراویڈنٹ فنڈ اور لیبر لاز کے مطابق دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی تک الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے لیے ایسا کوئی قانون بنایا ہی نہیں گیا۔
آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن کے سربراہ صدیق انضر کا کہنا ہے کہ ویج بورڈ ایوارڈ مکمل تو ہو جاتے ہیں مگر اخباروں کے مالکان کی طرف سے اخباری کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ ویج بورڈ پر روزنامہ جنگ، ڈان، بزنس ریکارڈر اور ایکسپریس اخبار کے مالکان تو عمل کر رہے ہیں مگر اس کا اطلاق صرف ان ملازمین پر ہوتا ہے جو مستقل ملازم کے طور پر بھرتی ہوئے۔ صرف انہی کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ کنٹریکٹ ملازمین ویج بورڈ ایوارڈ سے مستفید نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک پاکستان میں قانونی طور پر 15 ویج بورڈ ایوارڈ نافذ ہو جانے چاہئیں تھے مگر افسوس کی بات ہے کہ آٹھواں ویج بورڈ ایوارڈ بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا رہا۔ اخباری کارکنان اس سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہو پا رہے۔ صرف عالمی صحافی برادری کو مطمئن کرنے کے لئے پاکستان کے صحافیوں کے معاشی حقوق کے لئے ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان کیا جاتا ہے جو ظاہری دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت میں صحافی برادری کو اس ویج بورڈ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا۔
ایمپلی منٹیشن ٹربیونل فار نیوزپیپرز ایمپلائز کے رجسٹرار مظہر حنیف کا کہنا ہے کہ 2019 کا ویج بورڈ جو چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ حسنات احمد کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا اس کا نفاذ 2021 میں عمل میں لایا گیا۔ جنگ، ڈان، ایکسپریس، دی نیوز اور بزنس ریکارڈر جیسے تمام اخباری اداروں میں کام کرنے والے ریگولر صحافی جو ویج بورڈ کے تحت آتے ہیں ان کی تنخواہوں میں سالانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویج بورڈ کے تحت ہر سال جولائی میں صحافیوں کی تنخواہوں میں ان کے گریڈ کے مطابق اضافہ ہو رہا ہے۔ آٹھویں ویج بورڈ کے حوالے سے ایک ایشو بقایا جات کا ہے۔ جب 2019 میں آٹھویں ویج بورڈ کا اعلان ہوا اور اخباری مالکان نے 2021 میں صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تو صحافیوں کے 2019 اور 2020 یعنی دو سال کے واجبات رہتے ہیں جو جلد ان کی ماہانہ تنخواہوں میں شامل کر کے ادا کر دیے جائیں گے۔
عالمی برادری کی نظر میں پاکستان جہاں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے وہیں صحافیوں کے معاشی معاملات بھی پاکستان میں بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی نہ بنانا، تنخواہوں میں کمی لانا اور صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالنے جیسے مسائل کی وجہ سے ملک میں صحافت کے پیشے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس طرح حکومتی سطح پر تجربہ کار سیاست دانوں کو ہی ملک کے حالات میں بہتری لانے کی واحد امید سمجھا جاتا ہے تو ایسے ہی ریاست کے چوتھے ستون یعنی صحافت میں بھی تجربہ کار اور معاشی طور پر خوشحال صحافی عوام اور حکومت کے مابین ایک ذریعہ ہیں۔ حکومت اور میڈیا انڈسٹری کے مالکان کو صحافیوں کے معاشی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔