لفافہ صحافت

لفافہ صحافت
لفافہ صحافت ہے کیا؟ آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ لفافہ صحافت کسے کہتے ہیں۔ جو صحافی عمران خان یا تحریک انصاف کی کسی بھی پالیسی سے اختلاف کرے اسے لفافہ صحافی کہتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کا شمار بھی لفافہ صحافیوں میں ہوتا ہے۔

اکثر ٹویٹر پر تحریک انصاف کے حامی مجھے بھی لفافہ صحافی کہتے ہیں مگر میری نظر میں لفافہ صحافت کا الزام ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس وقت پاکستان میں جن صحافیوں پر لفافہ صحافی ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے دراصل وہی صحافی حقیقی طور پر صحافتی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں۔ ایک صحافی کا کام کسی سیاسی جماعت کو خوش کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام ہوتا ہے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے، پھر چاہے کسی سیاسی جماعت یا اس کے حامیوں کو خوشی ہو یا انہیں برا لگے۔



ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافیوں کو لفافہ صحافی کہتے ہیں مگر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا ہر فرد ہر دوسرے صحافی کو لفافہ صحافی کہتا ہے۔ شاید صحافیوں کو لفافہ صحافی کہنا تحریک انصاف کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔

تکلیف اس بات کی نہیں کہ تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے حامد میر، عمر چیمہ، مطیع اللہ جان، منصور علی خان اور بینش سلیم جیسے صحافیوں کو لفافہ صحافی کہا جاتا ہے بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کے حامیوں کی نظر میں ارشاد بھٹی، صابر شاکر، عارف حمید بھٹی اور مبشر لقمان جیسے صحافیوں کا شمار پاکستان کے صف اول کے صحافیوں میں ہوتا ہے۔



گذشتہ روز سینیئر صحافی حامد میر نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے حامد میر کو سندھی اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ اس ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں نے نہ صرف حامد میر کو حسب روایت لفافہ صحافی کہا بلکہ بلاول بھٹو اور حامد میر کی تصویروں کو ایڈٹ کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

صحافیوں کا سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ حامد میر کی بلاول بھٹو سے ملاقات رات کے اندھیرے میں نہیں ہوئی۔ حامد میر نواز شریف، عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں مگر حامد میر پر لفافہ صحافی ہونے کا الزام انہوں نے ہی لگایا جن کی جانب سے صحافیوں کو لفافہ صحافی کہنے اور صحافیوں پر غداری کے الزامات لگانے کی ایک طویل فہرست ہے۔

بلاول بھٹو اور حامد میر کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے ان کی جیبوں میں لفافہ ڈال کر عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ان دونوں شخصیات پر گھٹیا الزام لگایا گیا جو غیر اخلاقی حرکت ہونے کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم بھی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو قدم آگے بڑھانا ہوگا، تاکہ ایسے لوگ جعلی تصاویر پھیلا کر عوام کو گمراہ نہ کر سکیں۔ حامد میر صاحب کو چاہیے کہ وہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والے لوگوں کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کو درخواست دیں تاکہ ایسے لوگوں کو سزا مل سکے جو سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھال رہے ہیں تاکہ مستقبل میں پھر کوئی گروپ ایسی گھٹیا حرکت نہ کرے۔

مصنف صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر @UmairSolangiPK کے نام سے لکھتے ہیں۔