ملک کے معروف صحافی اعزاز سید نے بی بی سی کے لئے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں وزیر اعظم ہاؤس میں طاقت ور افسران کے کردار کے بارے میں انکشافات کیے ہیں۔ اس کالم میں انہوں نے تاریخی واقعات سے بھی پردہ اٹھایا ہے اور ان میں سے چند تو انتہائی سنسنی خیز ہیں۔
اعزاز سید لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری، پرنسپل سیکرٹری اور پرسنل سٹاف آفیسر وہ افسران ہیں جو طاقت ور ترین لوگ ہوا کرتے ہیں۔ یہ وزیر اعظم سے مسلسل رابطے میں رہنے کی وجہ سے ان کے فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اکثر اپنی منشا کے مطابق معاملات کو رخ دینے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملٹری سیکرٹری کا عہدہ وہ عہدہ ہوتا ہے جو حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان ایک پل کا کردر ادا کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص اس پر تعینات ہوتا ہے اس کے لئے دہری مشکل ہوا کرتی ہے۔
اسی حوالے سے وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس میں وزیر اعظم کو آرمی چیف کی جانب سے براہ راست دھمکی دی گئی تھی کہ وہ ان کے ایک وزیر کی ٹانگیں تڑوا دیں گے۔
تفصیلات کے مطابق ایک دن یہ پیغام وزیر اعظم ہاؤس کے اہم ترین افسر کو ملا کہ وزیر اعظم کو بتا دیں کہ ہم ان کے وزیر کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ان کے ساتھ بھی ایسی ہی بدسلوکی ہوگی جیسی ہمارے افسر کے ساتھ کی گئی۔‘
آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی طرف سے یہ پیغام وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر عبدالقیوم کو ملا تو وہ سٹپٹا اٹھے۔ پیغام رساں بھی کوئی عام آدمی نہیں بلکہ آرمی چیف کے ساتھ تعینات سینیئر فوجی افسر جاوید افضل تھے۔
اعزاز سید لکھتے ہیں کہ اس کہانی کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 1994/95 کے موسم گرما میں صوبہ سرحد کے صوبائی وزیر تعلیم خواجہ محمد خان ہوتی پُرفضا مقام ناران جا رہے تھے کہ راستے میں ان کے پروٹوکول سٹاف میں شامل ان کے سکیورٹی گارڈز کی ایبٹ آباد کے مقام پر سول کپڑوں میں ملبوس ایک فوجی میجر سے مڈھ بھیڑ ہو گئی۔
فوجی افسر کا سکیورٹی گارڈز سے تنازع گاڑی گزرنے کے معاملے پر ہوا اور غالباً اس کا پاؤں بھی زخمی ہو گیا۔ فوجی افسر کو سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا۔ اور معاملہ بڑھتے بڑھتے آرمی چیف تک جا پہنچا تو انھیں غصہ آ گیا۔
اعزاز سید کے مطابق ان کی طرف سے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر عبدالقیوم کے ذریعے پیغام دیا گیا تاکہ سولین سائیڈ کو پتہ ہو کہ ان کے وزیر کو اگر کوئی نقصان پہنچا تو اصل وجہ کیا ہے۔
اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر خواجہ محمد خان ہوتی بتاتے ہیں کہ ’مجھے کچھ لوگوں کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ میرا پاؤں توڑنے کے لئے لوگ گھوم رہے تھے، میں خود حیران تھا کہ اس معاملے سے میرا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ جھگڑا میرے گارڈز کے ساتھ ہوا تھا۔ اس معاملے پر میں نے زخمی میجر سے اسپتال میں چیف سیکرٹری اعجاز رحیم کے ہمراہ ملاقات کی تھی۔ میجر مجھ پر الزام عائد کر رہا تھا مگر میرے سامنے آنے پر وہ مجھے پہچان بھی نہیں پایا تھا۔‘
ملٹری سیکرٹری برگیڈیئر عبدالقیوم نے معاملہ وزیر اعظم بینظیر کے سامنے رکھا تو وہ بھی حیران ہو گئیں۔
ظاہر ہے سکیورٹی گارڈز کی لڑائی کی سزا ایک وزیر کو کیسے دی جا سکتی تھی؟ معاملہ حل کرنے کی ذمہ داری بھی ملٹری سیکرٹری پر عائد ہوئی تو وہ سول اور ملٹری کے درمیان ایک پل بن گئے۔
چونکہ یہ معاملہ اس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کل صوبہ خیبر پختونخوا کا تھا، لہٰذا اس وقت کے وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ وزیر سے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو وزیراعظم بینظیر اس پر ناخوش ہوئیں۔
مگر وزیر کو چھٹی پر بھیجنے کے درمیانی راستے پر اتفاق کر لیا گیا۔ اس دوران وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ نے بھی اہم کردار ادا کیا اور فریقین کی خاموشی سے صلح بھی کروا دی۔
یوں ایک معمولی سے واقعے پر سول اور ملٹری کے درمیان پیدا ہونے والا سنگین تنازع طے کرا دیا گیا۔ اس سارے معاملے میں وزیر اعظم کے اس وقت کے سیکرٹری احمد صادق اور پرسنل سٹاف افسر آغا سراج درانی لاتعلق ہی رہے۔
یہ واقعہ اس امر کی دلیل ہے کہ سویلین حکمرانوں کے لئے، اور خصوصاً ایسے حکمرانوں کے لئے جن کو طاقتور اسٹیبلشمنٹ ’ایک ہی صفحے‘ پر نہ سمجھتی ہو، ان کے لئے اقتدار ایک کانٹوں کی سیج ہوا کرتی ہے۔ باہر سے بظاہر پر سکون دکھائی دینے والا وزیر اعظم ہاؤس ہر وقت اندرونی چپقلش اور کھینچا تانی کی وجہ سے بننے والے پریشر کو ڈیل کر رہا ہوتا ہے اور اس میں توازن برقرار رکھنا وزیر اعظم کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا ہے۔