سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو جاری کیے گئے ترقیاتی فنڈز پر لیے گئے نوٹس کی پہلی سماعت میں وزیراعظم کے سیکریٹری کی جانب سے جمع کروائے گئے خط کو مسترد کردیا، مزید یہ وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ سیکریٹری خزانہ سے فنڈز سے متعلق واضح جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا نوٹس لیا تھا اور معاملے پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔
ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ خط میں عدالتی سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی کی ترقیاتی اسکیموں پر عمل آئین سے مشروط ہے، وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ سرکاری فنڈز کا غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا جبکہ کسی رکن اسمبلی کو پیسہ نہیں دیا جائے گا۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل میں مکالمہ ہوا اور فاضل جج نے پوچھا کہ وزیراعظم کے سیکریٹری کا خط کس نے ڈرافٹ کیا، جس پر خالد جاوید نے جواب دیا کہ یہ وکیل اور موکل کا آپس کا معاملہ ہے۔
اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ خط کی انگریزی درست نہیں ہے، خط میں عدالتی سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، لگتا ہے وزیراعظم نے عدالتی فیصلہ ٹھیک سے نہیں پڑھا، وزیراعظم نے شاید فنڈز دینے کے لیے دروازہ کھلا رکھنے کی کوشش کی۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیے گئے نوٹس پر مذکورہ معاملے کی سماعت کی، جہاں سیکریٹری وزیراعظم اعظم خان کی جانب سے خط پیش کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
جس پر گزشتہ روز چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔