ایک اور عمارت زمیں بوس، 20 افراد جاں بحق، کراچی لاوارث کیوں؟

ایک اور عمارت زمیں بوس، 20 افراد جاں بحق، کراچی لاوارث کیوں؟
7 جون 2020 کو کراچی میں عمارت گرنے کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ گرنے والی 6 منزلہ عمارت کراچی کے علاقے لیاری میں واقع تھی۔ ایس بی سی اے کے مطابق عمارت کو 18 مارچ کو مخدوش قرار دیتے ہوئے مکینوں کو عمارت خالی کرنے کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔

گذشتہ 6 ماہ میں کراچی میں عمارت گرنے کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ پہلا واقعہ 30 دسمبر 2019 کو رنچھوڑ لائن میں پیش آیا جہاں چھ منزلہ عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ مکینوں کو بروقت نکالے جانے کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ عمارت 13 سال پہلے بنائی گئی تھی۔ دوسرا واقعہ گولیمار کے علاقے میں 5 مارچ 2020 کو رونما ہوا جہاں 5 منزلہ عمارت گری اور اس کے ساتھ کی دو مزید عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ اس حادثے کے سبب 20 کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ عمارت 75 گز پہ کھڑی تھی اور پانچ منزلیں بننے کے باوجود چھٹی منزل تعمیر کی جا رہی تھی کہ عمارت زمیں بوس ہو گئی اور اب تیسرا واقعہ 7 جون 2020 کو لیاری جیسے گنجان آباد علاقے میں پیش آیا۔ تادمِ تحریر 20 لوگوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

عمارت گرنے کے اس طرح کے واقعات کے بعد ذہن میں مختلف سوالات جنم لیتے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہ کہ ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ جب یہ پانچ یا چھ منزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی تھیں تو متعلقہ ادارے کہاں تھے؟ گراؤنڈ پلس ون/ٹو کی اجازت لے کر پانچ، چھ منزلہ عمارت کیسے کھڑی کر دی جاتی ہے؟ کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کام صرف نوٹسز جاری کرنا رہ گیا ہے؟ مخدوش عمارتوں کے مکینوں کو متبادل رہائش کیوں فراہم نہیں کی جاتی؟

یہ سب سوالات اور اس طرح کے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں مگر جواب ندارد۔

عمارت گرنے کے ایسے تمام ہی واقعات کے بعد وہی روایتی قسم کے بیانات دیے جاتے ہیں جو ہمیں ازبر ہو چکے ہیں۔ سخت نوٹس لے لیا گیا ہے، تحقیقات کی ہدایت کر دی گئی ہے، ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی وغیرہ وغیرہ مگر آج تک کسی واقعے کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ چار، آٹھ ذمہ داروں کو کڑی سزا نہیں دی گئی۔ متعلقہ اداروں کی مجرمانہ خاموشی معصوم لوگوں کی جانیں لے رہی ہے اور کئی ہزار لوگوں کی جانیں خطرے میں ہیں کیونکہ کراچی میں تقریباً 450 عمارتیں ایسی ہیں جو مخدوش قرار دی جا چکی ہیں۔ خدانخواستہ پھر کسی دن کوئی بڑا واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔

ہر واقعہ کے بعد چند دن میڈیا اور سوشل میڈیا پہ شور مچتا ہے، پھر کوئی نیا موضوع مل جاتا ہے تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر اب باقاعدہ ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ اگر جگہ قانونی ہے تو گراؤنڈ پلس ون کی اجازت لے کر کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کر کے قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ چند دنوں یا چند مہینوں میں نہیں ہوا بلکہ اس صورتحال میں پہنچنے میں سالوں لگے ہیں۔ سالوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ کراچی کے عوام جان و مال سے محروم ہو کر بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتیں گے۔

کراچی کی تین بڑی سٹیک ہولڈر جماعتیں پی پی پی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ہیں مگر تینوں اس صورتحال میں صرف بلیم گیم کھیلتی ہیں۔ اسی لئے کراچی شہر لاوارث ہو گیا ہے۔ کراچی سے ووٹ سب کو چاہیے ہوتا ہے مگر جب بات ہمارے مسائل حل کرنے کی ہو تو دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ہی کوئی اس شہر کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ کراچی کے شہری اس وقت بنیادی وسائل کی فراہمی کے حوالے سے شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہیں اور نہ جانے کب تک رہیں گے۔