عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل نہ ہونے سے مسئلہ ہے: بلاول بھٹو زرداری

عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل نہ ہونے سے مسئلہ ہے: بلاول بھٹو زرداری
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ فوج ان کی حمایت کیوں نہیں کرتی۔

غیرملکی چینل الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ چئیرمین پی ٹی آئی نے پاکستان میں ہمیشہ ڈکٹیٹرزکو سپورٹ کیا ہے۔ اس بات کے مکمل شواہد اور ثبوت موجود ہیں کہ 2018 میں دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت قائم کی جس میں فوج کے کچھ سابق افسران ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ چئیرمین تحریک انصاف کو فوج سے مسئلہ گزشتہ اپریل میں شروع ہوا جب فوج نے سیاست میں حصہ نہ لینے اور کسی بھی پارٹی کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ فوج ان کی حمایت کیوں نہیں کرتی۔

بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے 9 مئی کے واقعات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جب چیئرمین پی ٹی آئی کے اکسانے پر ان کے حامیوں نے 9 مئی کو جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس سمیت فوجی تنصیبات پر حملے کئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ایسے اقدام کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان حملوں میں ملوث عناصر کو قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ فوج غیر جانبدار رہے اور سیاست میں مداخلت نہ کرے۔جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ میثاق جمہوریت کی وجہ سے 2008 سے 2013 تک سیاسی استحکام رہا۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ  پاکستان میں فوج کے غیر مقبول ہونے کا موقف چیئرمین پی ٹی آئی کے حامیوں کا ہے اور یہ تاثر درست نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستانی سیاست میں فوج کے عمل دخل کا تعلق کا ہے تواس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں آدھے عرصے فوجی حکومت رہی ہے۔میری پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر مرتبہ آمریت کو چیلنج کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کو مشکل وقت اور سنگین چیلنجز کا سامنا ہے تاہم مجھے یقین ہے پاکستانی عوام اپنے حوصلے اور عزم کے ساتھ ان چیلنجز پر قابو پا لیں گے اور ملک ترقی کرے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عراق اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں جڑے ہیں۔ پاکستان عراق کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتا ہے۔ نجف اشرف میں جلد پاکستانی قونصل خانہ قائم کیا جائے گا۔ عراق کے ساتھ معاشی اور تجارتی شعبوں میں تعلقات کا فروغ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ افغانستان میں کئی دہائیوں سے بدامنی ہے۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسی واضح ہے۔ ایک خوشحال اور محفوظ افغانستان نہ صرف افغان عوام بلکہ ہمسایوں اور عالمی برادری کے مفاد میں ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت خواتین کی تعلیم، انسانی حقوق اور اپنی سرزمین دوسرے ممالک کیخلاف دہشت گردی کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ عالمی برادری اور اپنے عوام سے اس حوالے سے کئے جانے والے وعدے پورے کرے۔ افغانستان کے مسائل کا حل بات چیت میں ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے پاکستان کو خطرات کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف کارروائیوں کیلئے کابل سے استدعا کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کے درمیان بارٹر مارکیٹ اور ٹرانسمیشن لائن کے حوالے سے دو معاہدے کئے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی مدد سے سفارتی تعلقات کی بحالی مثبت خبر ہے۔یہ علاقے کے ممالک کیلئے اہم ہے۔ بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ چین پاکستان دوستی ہر موسم میں آزمودہ ہے۔ پاکستان چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ سی پیک کے تحت پاکستان میں مہنگے منصوبوں کا تاثر درست نہیں ہے۔ سی پیک پاکستان اور چین سمیت دیگر ممالک کیلئے گیم چینجر ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کیلئے پرعزم ہے۔ روس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان نے روس، یوکرائن جنگ میں غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائی ہے۔