خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو چیلنج کیا ہے کہ وہ گورنر ہاوس کے گیٹ پر قدم رکھ کر دکھائیں، پھر اپنی حالت دیکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیان بازی کرنا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی مجبوری ہے، وہ ایسا نہ کریں تو جیل میں جب عمران خان کے ساتھ ملاقات کرنے جاتے ہیں تو ان کی بے عزتی ہوتی ہے۔ وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے بڑھکیں مارتے ہیں۔
ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور جس لیول پر بات کرتے ہیں وہ میرے لیول سے بہت نیچے ہے، اگر وہ میرے لیول پر آ کر بات کریں گے تو اس کا جواب دوں گا۔ وزیر اعلیٰ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اصلی نہیں بلکہ اپنی نوکری بچانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو اویس لغاری اور محسن نقوی سے ملاقات میں منتیں نہ کرتے اور اپنا لہجہ نہ بدلتے۔ وزیر اعلیٰ عمران خان کے ہاتھوں مجبور ہیں جو ایسی لفاظی کرتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو جیل میں جا کر ان کی بے عزتی ہوتی ہے اور سکورنگ بھی کم ہوتی ہے۔ کام تو ویسے بھی ان لوگوں نے نہیں کرنا، صوبے کو تحریک انصاف نے تباہی کے سوا کیا دیا ہے؟
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر کا کہنا تھا کہ یہ جو بجلی کا بٹن بند کر دوں گا والی بات کرتے ہیں یہ صرف ڈائیلاگ ہے، اصل میں وزیر اعلیٰ کی حکومت کا بٹن میرے پاس ہے۔ اگر میں نے بٹن دبا دیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ صوبے کے حقوق لینے کے لئے زبان ایسی نہیں ہوتی اور نہ وفاق زبردستی کسی صوبے کا حق روک سکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی گورنر ہاؤس سے نکالنے کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مجھے گورنر ہاؤس سے نکالنے اور دانہ پانی بند کرنے والی باتیں بھی ڈائیلاگ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں اپنا دفاع کرنا جانتا ہوں، اس کے بولنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ صوبے کے حقوق اور مسائل کے حوالے سے میں نے تمام پارٹیوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، تحریک انصاف کے لئے بھی میرے دروازے کھلے ہیں۔ پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ صوبے کے مسائل کے لئے میں ہر سطح پر ساتھ دوں گا۔ انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں، ان کی پارٹی، اے این پی، مسلم لیگ ن، قومی وطن پارٹی اور باقی پارٹیوں کی ایک مشترکہ کمیٹی بنائیں گے۔ اس کمیٹی میں ہر پارٹٰی سے دو نمائندگان کو شامل کیا جائے گا جو وفاق سے صوبے کے مسائل اور بقایا جات کے بارے میں بات کرے گی۔ مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہماری بات ضرور سنیں گے۔
خیبر پختونخوا کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی مسائل کے بارے میں سوال پر گورنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم صاحب نے یونیورسٹیوں کے بجٹ پر کٹ لگانے کا فیصلہ واپس لیا ہے، پختونخوا کی یونیورسٹیوں کو 40 ارب روپے ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی 22 یونیورسٹیاں وائس چانسلرز سے محروم ہیں، انٹرویوز وغیرہ ہو چکے ہیں مگر ان کی حکومت نے ان تعیناتیوں کو روکا ہوا ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ یونیوسٹیوں کے مسائل جلد از جلد حل کروں تا کہ صوبے میں تعلیمی درسگاہیں آباد رہیں۔
بدقسمت پختونخوا کے وزیراعلیٰ، گورنر اور آئی جی پولیس کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے مگر ضلع ڈی آئی خان گذشتہ 3 سال سے 'نو گو ایریا' میں تبدیل ہو گیا ہے۔ گذشتہ 3 سال میں سب سے زیادہ پرتشدد واقعات ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں رونما ہوئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ 3 ماہ کے دوران شمالی وزیرستان کے بعد ڈی آئی خان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ڈی آئی خان میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد 37 ہے، مگر صوبے کے دو بڑے عہدیداروں یعنی گورنر اور وزیر اعلیٰ کو ایک دوسرے کے خلاف تنقید اور بیان بازی سے فرصت نہیں۔ صوبے اور ڈی آئی خان کے امن و امان کی صورت حال تو شاید دونوں صاحب اقتدار بھول گئے ہیں۔