Get Alerts

عمران خان کے حق میں آواز نہ اٹھانا سول سوسائٹی کا دہرا معیار ہے

مذہب، شادی، نکاح کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے والے عدت کیس اور اس پر ہونے والی سزا پر احتجاج تو کیا کرتے بلکہ بہت سے سکہ بند لبرل، ترقی پسند اس پر ٹھٹھے لگاتے رہے اور فقرے کستے رہے۔ ثابت یہ ہوا کہ ان کے اصول شخصیات کو دیکھ کر بدلتے ہیں۔

عمران خان کے حق میں آواز نہ اٹھانا سول سوسائٹی کا دہرا معیار ہے

دو برسوں میں پاکستان میں اس قدر واقعات ہوئے اور اس قدر تیزی کے ساتھ ہوئے کہ بہت کچھ آشکار ہوتا گیا۔ رجیم چینج کے بعد بطور خاص پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مذہبی حلقے تو ہمیشہ سے عمران خان کے ساتھ ایک خاص قسم کا رویہ رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہ عمران خان کے حمایتی تھے اور بہت سے لوگ ایسے بھی جو کہ عمران خان کی سیاست کے ساتھ اختلاف رکھتے تھے لیکن اس حوالے سے لبرل دوستوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، شخصی آزادیوں کے پرچار کرنے والوں، سول سپرمیسی کی بات کرنے والوں، عورتوں کے سیاسی حقوق اور عورتوں کے بنیادی حقوق کی بات کرنے والوں، نوجوانوں کو سیاست میں حصہ لینے پر قائل کرنے والوں، مذہب کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے والوں، پاکستان کو ایک روشن خیال ملک بنانے کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور ساری زندگی سپر سول سپرمیسی کی جدوجہد کی کہانیاں سنانے والوں نے جتنا مایوس کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

مسئلہ یہ تھا کہ یہ طبقے عمران خان اور تحریک انصاف کو پسند نہیں کرتے اور اس کے ساتھ بغض رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے اصول بھی قربان کر دیے۔ عمران خان پر جس قسم کے جھوٹے پرچے کیے گئے، تحریک انصاف اور اس کی قیادت اور کارکنان پر جو ظلم و ستم ڈھائے گئے، ڈاکٹر یاسمین راشد، خدیجہ شاہ، عالیہ حمزہ، صنم جاوید و دیگر پر جس طرح ظلم ڈھائے گئے اس پر عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے کیوں خاموش رہے؟

مذہب، شادی، نکاح کو انسان کا ذاتی مسئلہ قرار دینے والے عدت کیس اور اس پر ہونے والی سزا پر احتجاج تو کیا کرتے بلکہ بہت سے سکہ بند لبرل، ترقی پسند اس پر ٹھٹھے لگاتے رہے اور فقرے کستے رہے۔ کچھ تو ایسے تھے جو پچھلے کچھ عرصے میں کچھ سیاسی لیڈران کے بارے میں یہ کہتے رہے کہ ان کا سیاسی قد اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ مینار پاکستان بھی جھک کر انہیں سلام کر رہا ہے۔ پھر وہی لیڈران جب تمام تر سمجھوتے کر کے اقتدار میں آئے تو آج پھر ان کی تعریفوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ ان کے اصول شخصیات کو دیکھ کر بدلتے ہیں۔ آج کتنے لوگ ہیں جو کہ پنجاب میں پیش ہونے والے ہتک عزت قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں یا اپنی تحریروں کے ذریعے اس پر احتجاج کر رہے ہیں؟ کوئی بھی نہیں!

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبردار انصاف کی بنیاد پر آواز نہیں اٹھاتے بلکہ شخصیات کی بنیاد پر اٹھاتے ہیں۔ جانے وہ کون لوگ تھے جو انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مذاہب، ذات پات سے بالا تر ہو کر بات کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہو رہا۔ عمران خان اور نا ہی تحریک انصاف کے دیگر اسیروں جیسے عمر سرفراز چیمہ، میاں محمود الرشید اور دیگر کارکنوں کے لیے کہیں آواز اٹھ رہی بلکہ اس کو اچھا سمجھا جا رہا ہے۔ شریف خاندان اور ہئیت مقتدرہ کے دستر خوان کے رسیا صحافی تو ان احباب کی گرفتاری پر مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ ان کے شوشل میڈیا اکاؤنٹ پر مسلسل تحریک انصاف کے کارکنوں اور اعلیٰ قیادت کے بارے میں تضحیک آمیز پوسٹس لگا رہے ہیں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔

یہی صورت حال عورتوں کے حقوق کے علمبرداروں کی بھی ہے۔ عورت مارچ کرنے والی تنظیموں نے کبھی ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی غیر قانونی گرفتاری پر ایک ڈھنگ کی پریس کانفرنس نہیں کی، پریس ریلیز تک جاری نہیں کی۔ وہ صرف خاموش ہے۔ یہ بغض عمران خان کی انتہا ہے اور کیا ہے۔ ایک بات جو سمجھ آتی ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پاکستان کی سماجی صورت حال کو بالکل سمجھ نہیں پائے۔ وہ ایک آئیڈیل اپروچ میں رہے۔ جب تک وزیر اعظم رہے نہ ہی صحافی تنظیموں نہ بار ایسوسی ایشنز نہ ہی سول سوسائٹی کے وفود سے ملاقاتیں کیں نہ کسی کو فنڈز جاری کیے۔ اگر بطور وزیر اعظم آپ یہ نہیں کرتے تو پھر ابتلا میں اس ملک میں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ادھر کوئی اصولی مؤقف نہیں ہوتا۔ یہاں مفادات کا کھیل ہے۔

عمران خان کی قید کو ایک سال ہونے کو ہے۔ توشہ خانہ کیس، سائفر کیس ردی کی ٹوکری میں جا چکے ہیں۔ عدت کیس عالم اسلام کی تاریخ کا واحد گھٹیا ترین مقدمہ ہے، وہ بھی تاریخ کے کوڑے دان میں جائے گا۔ عمران خان نے قید تنہائی میں خوب مطالعہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے رہائی کے بعد ایک مختلف عمران خان ہو گا۔ اگر اقتدار میں آ گیا جس کا ثبوت 8 فروری کے انتخابات میں بھرپور عوامی مینڈیٹ ہے تو پھر اس دوران اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ ساتھ بار ایسوسی ایشنز، صحافی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو بھی ساتھ لے کر چلے گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔