پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت میں نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جو 29 مئی کو سنایا جائے گا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے دوران عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر سماعت کی۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل عثمان ریاض گل جبکہ راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ کے معاون وکیل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ رضوان عباسی صاحب نے دلائل دینے ہیں۔ ریکارڈ ان کے پاس موجود نہیں ہے جس پر جج نے عثمان ریاض گل سے استفسار کیا کہ آپ نے بھی تو دلائل دینے ہیں۔ اپنے فائنل کرلیں۔
عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنے دلائل کے لیے 10 سے 15 منٹ لوں گا۔
جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیئے کہ ایک بجے تک رضوان عباسی عدالت کے سامنے ہر حال میں اپنے دلائل دیں، ایک بجے تک ویڈیو لنک کے ذریعے دلائل لازمی دیں۔
بعدازاں عدالت نے آج عدت نکاح کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کیس کی سماعت میں ایک بجے تک کا وقفہ کردیا۔
سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی وکلا عثمان گل، شعیب شاہین، ظہیر عباس، نیاز اللہ نیازی جبکہ پراسیکیوٹر عدنان علی سیشن عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی رہنما سیمابیہ طاہر، شاندانہ گلزار سمیت پی ٹی آئی خواتین ورکرز سے کمرہ عدالت کھچا کھچ بھر گیا۔
جج شاہ رخ ارجمند نے عثمان گل کو ہدایت دی کہ دلائل مکمل کریں۔ جس پر وکیل نیاز اللہ نیازی نے بتایا کہ دلائل تو مکمل ہوچکے ہیں۔ رضوان عباسی نے دلائل دینے تھے۔
جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیئے کہ عثمان گل نے صرف جواب الجواب دینے ہیں، دلائل مکمل ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل عثمان ریاض گل نے کہا کہ عدت نکاح کیس کی شکایت تاخیر سے دائر کی گئی۔ اس سے قبل پرائیویٹ شکایت دائر کی گئی۔ وکیل تب بھی رضوان عباسی ہی تھے۔
عثمان ریاض گل کا کہنا تھا کہ عدالت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ شکایت بہت دیر سے دائر ہوئی۔پہلے مرحلے میں ایک انجان شخص نے شکایت دائر کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں ایک ہی سبجیکٹ کے ساتھ شکایت دائر کی گئی۔
عثمان ریاض گل نےمؤقف اپنایا کہ عدالت نے دونوں شکایات میں شواہد کو دیکھنا ہیں۔ پانچ سال 11 ماہ شکایت درج نہیں کروائی۔ اتنا وقت کیا کرتے رہے؟ یہ کیس صرف اور صرف سیاسی طور پر نشانہ بنانے کے لیے دائر ہوا ہے۔
وکیل عثمان گِل کا کہنا تھا کہ پہلی شکایت کا شکایت کنندہ محمد حنیف ایک اجنبی شخص تھا۔ دوسری خاور مانیکا نے دائر کی۔ دونوں شکایات میں عمران خان، بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات ایک ہی تھے۔
وکیل عثمان گل نے مزید کہا کہ شکایت کے ذریعے بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی کی عزت کو نقصان پہنچانا تھا۔ دوران ٹرائل نکاح خواں مفتی سعید سے سول عدالت نے چند سوالات کیے۔
عثمان گل نے بتایا کہ مفتی سعید سے سوالات پوچھنے کا مقصد مفتی سعید کے کردار کو واضح کرنا تھا۔90 کی دہائی میں رجیم چینج میں مفتی سعید کا بھی کردار تھا، جس سے کردار واضح ہوتا ہے۔
وکیل عثمان گل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خاور مانیکا کو کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا۔ ضمانت ملنے پر شکایت دائر کی۔ دوران عدت نکاح کی شکایت محمد حنیف نے واپس لی اور 48 گھنٹوں میں خاور مانیکا نے شکایت دائر کردی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محمد حنیف اور خاور مانیکا کے وکیل رضوان عباسی ہی تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہانی گھڑی گئی۔ ایسے طریقہ کار سے دائر شکایت کو کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔
عثمان گل نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کو اپنا کیس قانون شہادت کے تحت ثابت کرنا ہے۔ الزام تھا کہ عدت کا وقت پورا ہونے سے پہلے شادی کی گئی۔ پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے کہ عدت میں شادی ہوئی۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ پراسیکیوشن کا انحصار ایک دستاویز پر ہے، جس میں کہا گیا کہ اس تاریخ کو طلاق ہوئی۔ دستاویز جو عدالت میں پیش کی گئی وہ ایک فوٹو کاپی ہے۔ اگر اصل ڈاکومنٹ پیش نہ کیا جائے تو وہ قانون کے مطابق قابل قبول دستاویز نہیں ہوتا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
عثمان گل نے بتایا کہ اگر قانونی تقاضے پورے نہ کیے گئے ہوں تو اس دستاویز کو جوڈیشل ریکارڈ پر نہیں لایا جاسکتا۔
وکیل عثمان ریاض گل نے عدالت میں پیش کیے جانے والے دستاویز کے حوالے سے گائیڈ لائن پیش کر دی۔
عثمان گل کا کہنا تھا کہ طلاق کے حوالے سے جو فوٹو کاپی پیش کی گئی اس پر اعتراض اٹھایا مگر ٹرائل کورٹ نے اس کو مسترد کیا۔ اگر کسی دستاویز کی حیثیت مشکوک ہو تو اس کو جوڈیشل ریکارڈ میں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
عثمان گل نے دلائل دیئے کہ پراسیکوشن اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ کریمنل کورٹ کے پاس شادی کو جائز یا ناجائز قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ کریمنل کورٹ کے پاس اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ اس معاملے کے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے سپیشل کورٹس موجود ہیں۔فیملی کورٹ کسی بھی شادی کو اگر غیر قانونی قرار دیتی ہے تو ہی کریمنل سماعت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ فیملی کورٹ کی ڈیکلریشن کے بغیر کسی بھی شادی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عثمان گل کا کہنا تھا کہ سابقہ پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کیس کے حوالے سے حقائق عدالت کے سامنے رکھے تھے اور اگلے ہی روز ٹرانسفر کر دیا گیا۔
جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کے بعد کیا توقع کرسکتے ہیں؟ ان کے اس جملے پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وکیل عثمان گل نے بتایا کہ طلاق کے بعد بشریٰ بی بی اپنے والدین کے گھر گئیں، عدت مکمل کی جس کے بعد نکاح کیا۔ عدت میں نکاح کیس کا ٹرائل تو عدالتی اوقات کے بعد بھی چلایا گیا تھا۔ ایسی سماعتیں غیرقانونی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وکیل عثمان گل نے جواب الجواب مکمل کرلیے اور اپیلوں کو منظور کرنے کی استدعا کر دی۔
وکیل عثمان گل نے عدت میں نکاح کیس میں سزا کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے جواب الجواب کا آغاز کردیا۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے عدالت کو بتایا کہ عدت میں شادی کرنا جائز ہے یا نہیں، سزا ہو سکتی یا نہیں۔ اسی کا کیس ہے۔ عدت مکمل ہونا ضروری ہے کیونکہ شادی کا انحصار عدت پر ہے۔
عدنان علی نے مؤقف اپنایا کہ نکاح ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ دوران عدت نکاح کرنے پر سزا ہے۔ پراسیکیوٹر عدنان علی کے جملے پر پی ٹی آئی خواتین کارکنان کے کمرہ عدالت میں شیم شیم کے نعرے لگائے۔
پراسیکیوٹر عدنان علی کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ انہوں نے سزا کو برقرار رکھنے کی استدعا کردی اور اس کے ساتھ ہی جواب الجواب مکمل ہو گئے۔
عدنان علی نے سرکار کی جانب سے دوبارہ دلائل دینے کی استدعا کردی۔سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے پراسیکیوٹر عدنان علی کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے عدالت کو بتایا کہ 1989 میں خاورمانیکا اور بشریٰ بی بی نے شادی کی۔ ہنسی خوشی شادی گزار رہے تھے۔ 28 سال شادی کا عرصہ رہا۔ 5 بچے ہوئے لیکن عمران خان کی مداخلت کے باعث بشریٰ بی بی کو طلاق ہوئی۔
عدنان علی نے دلائل دیئے کہ بانی پی ٹی آئی بار بار خاورمانیکا، بشریٰ بی بی کی زندگی میں مداخلت کر رہے تھے۔ خاورمانیکا نے کہا عمران خان کی مداخلت کے باعث ہنستا بستا گھر اجڑ گیا۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ خاور مانیکا رجوع کرنا چاہتے تھے لیکن دوران عدت بشریٰ بی بی نے نکاح کر لیا۔ گواہان نے حلف پر گواہی دی۔ عمران خان نے حلف کے بغیر 342 کا بیان ریکارڈ کروایا۔
ان کا کہنا تھا کہ خاور مانیکا کی بیٹیوں کی ویڈیو بطور دفاع نہیں لائے کیونکہ بشریٰ بی بی، عمران خان کے خلاف تھیں۔ نکاح کی تقریب میں عون چودھری، مفتی سعید کی موجودگی تصاویر سے ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ دنیا کو معلوم ہے کہ 90 دن عدت کا دورانیہ ہوا لیکن بشریٰ بی بی نے مفتی سعید کو عدت مکمل ہونے کا نہیں بتایا۔ طلاق زبانی کلامی دی گئی۔ کب ہوئی؟ کس کے سامنے ہوئی؟ کچھ معلوم نہیں۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے دلائل دیئے کہ کہتے ہیں مفتی کا لفظ نہیں استعمال کرنا۔ جب مفتی سعید عمران خان کے ساتھ تھے تو مفتی تھے اب اٹھانے کی باتیں کرتے ہیں، سیاسی باتیں کرتے ہیں۔
عدنان علی کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ بنانے والے شخص کا ایسا طرزعمل ہے؟ ایک عورت 28 سال ایک شخص کے ساتھ رہیں۔ زبانی کلامی طلاق کے بعد فوراً شادی کر لی، بشریٰ بی بی کو 28 سالہ تعلق ختم ہونے کا کوئی غم نہیں؟
پراسیکیوٹر عدنان علی کے دلائل پر پی ٹی آئی خواتین ورکرز نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے عدت مکمل ہونے سے پہلے شادی قائم رہتی ہے۔ عورت کی طلاق ہو جائے تو ایک سال تک صدمے سے نہیں نکلتی۔ ہمارے معاشرے میں پیر کے کہنے پر قتل ہو جاتے ہیں، پیری مریدی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
وکیل عثمان گل نے اعتراض کیا کہ ایسے دلائل نہ دیں جس سے دل آزاری ہو۔
شکایت کنندہ وکیل رضوان عباسی کے معاون نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔ معاون وکیل شکایت کنندہ نے استدعا کی کہ رضوان عباسی آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔
پراسیکیوٹر عدنان علی نے کہا کہ بشریٰ بی بی کی طلاق کی تو کوئی تاریخ ہی نہیں۔ عمران خان، بشریٰ بی بی اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔ واقعہ ہی اسلام آباد کا ہے۔ کہاں ہے بشریٰ بی بی، بانی پی ٹی آئی کا نکاح نامہ؟
انہوں نے مزید کہا کہ سات سال کی سزا حق و سچ کی سزا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پراسیکیوٹر عدنان علی نے دلائل مکمل کر لیے۔
معاون وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ رضوان عباسی بیرون ملک ہیں۔ مصروفیات ہیں۔ چھوٹی سی تاریخ دے دیں۔ 28 مئی کو وطن واپسی ہے۔
بعد ازاں عدت نکاح کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
عدالتی عملہ کے مطابق دوران عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر محفوظ شدہ فیصلہ 29 مئی کو سنایا جائے گا۔