پاکستان کے وزیر اعظم اپنے سیاسی U ٹرن کے لئے مشہور ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے وہ اپنے U ٹرن لینے کی صلاحیت پر بہت فخر کرتے ہیں، اسی لئے کچھ لوگوں نے ان کا نام U-turn خان رکھ ڈالا ہے۔
لیکن ان کی حالیہ پالیسی تبدیلی مجھ جیسے لوگوں کے لئے ایک جھٹکا ہے جو 90 کی دہائی سے ان کی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ تب وہ خود کو انسانی حقوق کے چیمپیئن کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اور اب وہ دنیا کے پہلے غیر ملکی لیڈر ہیں جنہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد پوٹن سے ملاقات کی اور اس پر خوب شادیانے بھی بجوائے گئے۔
مجھے یاد ہے جب عمران خان نے ایک مرتبہ اسلام آباد میں روسی افواج کی جانب سے چیچنیا میں قتلِ عام پر احتجاج کیا تھا۔ ان کی سابقہ برطانوی اہلیہ جمائما خان اور ان کے دو بیٹوں نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ عمران خان نے ماسکو کے خلاف ایک بھرپور تقریر کی تھی اور احتجاج کے شرکا نے ' روس مردہ باد' کے نعرے لگائے تھے۔ اسی دن کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے میرے اخبار کے دفتر میں کال کی جہاں میں اس وقت کام کرتا تھا اور تجویز دی کہ ہمیں روس کی جانب سے چیچنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک اداریہ لکھنا چاہیے، جو کہ ہم نے بعد میں لکھا بھی۔
کیا عمران خان بھول گئے ہیں کہ یہ پوٹن ہی تھا جس نے 1999 میں بطور روسی وزیر اعظم چیچنیا پر ماسکو کی دوسری یلغار کا آغاز کیا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ایک سابق چیچن باغی احمد قادروو روسی فوج کے ساتھ مل گیا اور اس نے جمہوری چیچنیا پر قبضہ کرنے میں پوٹن کی بھرپور مدد کی۔ بعد ازاں قادروو ایک فراڈ الیکشن کے ذریعے چیچنیا کا صدر بن گیا۔ اس کو قتل کر دیا گیا اور کچھ سال بعد اس کے بیٹے رمضان نے اقتدار سنبھال لیا اور یہ آج بھی وہاں حکومت میں ہے۔
امریکی حکومت نے 2020 میں رمضان قادروو کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اپنے ماسکو دورے کے دوران عمران خان نے خاص طور پر اس شخص سے ملاقات کی جسے کچھ لوگ 'چیچنیا کا قصاب' کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ دیکھنا انتہائی حیران کن تھا۔ لیکن بڑا سوال آج بھی وہی ہے کہ عمران خان نے یوکرین کو دھوکہ کیوں دیا جس نے ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر اسلام آباد کا ساتھ دیا تھا؟
بھارت کا یوکرین حملے پر روس کی مذمت نہ کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ دلی اور ماسکو کے درمیان دوستانہ تعلقات سؤویت دور سے موجود ہیں اور اس وقت روس بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔ روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد مرتبہ بھارت کا ساتھ دیا ہے، اس نے کشمیر کے معاملے پر دلی کے خلاف کئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔ آج بہت سے بھارتی شہری یوکرین حملے پر پوٹن کی حمایت اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ پوٹن کا یوکرین پر مؤقف بھارت کے کشمیر پر مؤقف سے ملتا جلتا ہے۔ ایک بھارتی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک مضمون میں لکھا گیا ہے کہ پوٹن کو "بس روس کا نقشہ تبدیل کر کے اس میں یوکرین کو شامل کر لینا چاہیے، جیسا ہم نے کشمیر کے ساتھ کیا"۔
بھارتی یہ بھلانے کے لئے تیار نہیں کہ جب دلی نے 2019 میں جموں و کشمیر کی خود مختاری ختم کی تھی تو یوکرین نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اگلے سال بھارت نے سلامتی کونسل میں یوکرین کی لائی ہوئی قرارداد کی مخالفت کی جس میں کریمیا میں روس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تنقید کا ہدف بنایا گیا تھا۔ بھارتی یوکرین کو پاکستان کے ساتھ اسلحے کے سودوں پر بھی سبق سکھانا چاہتے تھے۔ ابھی پچھلے ہی سال پاکستان نے یوکرین کو ایک ساڑھے 8 کروڑ ڈالر کا ٹھیکہ دیا ہے جس کے مطابق 90 کی دہائی میں خریدے گئے T-80UD ٹینکوں کو جدید بنایا جانا ہے۔
اور اس سب کے باوجود گذشتہ ہفتے پاکستان ان 35 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ عمران خان مغرب مخالف کارڈ کھیلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں: جب 23 یورپی یونین کے ممالک نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان سے روسی حملے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، انہوں نے ان پر شدید تنقید کی کہ کشمیر میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر ان ممالک نے بھارت پر تنقید کیوں نہیں کی۔ باوجود اس کے کہ روس سے متعلق پالیسی پر سفارتی طور پر وہ بھی اب اسی کیمپ میں ہیں جس میں بھارت ہے، کیونکہ اس نے بھی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے احتراز کیا ہے۔
یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا عمران خان کی یہ روس نواز پالیسی پاکستان کے قومی مفاد میں بھی ہے یا نہیں۔ کچھ پاکستانی مبصرین نے توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ تجارتی تعلقات اس کی روس کے ساتھ تجارت کے حجم سے کئی گنا بڑے ہیں۔ تو پھر ماسکو کے ساتھ ہم کیوں چل پڑیں؟ ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے خلاف قومی اسمبلی میں آئی تحریکِ عدم اعتماد کو مغرب مخالف جذبات ابھار کر شکست دینا چاہتے ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک بین الاقوامی تنازع میں کسی فریق کا ساتھ نہ دے کر عمران خان ایک متوازن اور خود مختار خارجہ پالیسی چلا رہا ہے۔ لیکن پاکستان امریکہ کا ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی بھی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ کیسے چل سکتی ہیں؟ اور عمران خان 'توازن' کے نام پر روس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ کیا وزیر اعظم اس مصنوعی غیر جانبداری کے نتائج سے مکمل طور پر باخبر بھی ہیں؟ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ اور اس کا عالمی برادری میں ہماری گرتی ہوئی ساکھ کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوششوں میں نقصان ہوگا۔
ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار نے حال ہی میں یوکرین کو پاکستان کو اسلحہ بیچنے کا طعنہ دیا۔ لیکن عمران خان بھی یوکرین کا ساتھ نہ دے کر بھارتیوں کو ہی خوش کر رہے ہیں۔ شاید صدر جو بائیڈن نے ان کو زیادہ اہمیت نہ دے کر عمران خان کی انا کو ٹھیس پہنچائی ہے – مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے قومی مفادات کا خیال نہ رکھا جائے۔ خان صرف پوٹن کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ عملی طور پر بھارت کا بھی ساتھ دے رہا ہے جو یوکرین کو کشمیر پر اصولی مؤقف اپنانے کی سزا دے رہا ہے۔ یوں عمران خان نے بھارت کو مغرب سے دور کرنے کا ایک موقع کھو دیا۔ ان کا پوٹن سے یہ نیا رومانس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے بڑا دھچکا ہے۔
حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔