ادارتی نوٹ: بھارتی مصنف سعید نقوی کی یہ تحریر 8 مئی کو ڈان میں شائع ہوئی تھی، جس کو انگریزی سے ترجمہ کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
کیرالہ میں جناح کی تصویر
میری طرح آپ بھی 1990 کی دہائی میں کیرالہ کے انڈین مسلم لیگ دفتر جاتے تو دیوار پر لگی محمّد علی جناح کی تصویر پر آپ کی نظر ٹھہرتی۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ تصویر آج بھی وہاں ہوگی کیونکہ بعد میں اس جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ اس بارے میں جب اس جماعت کے بظاہر ایک غیر منطقی اتحادی سے پوچھا گیا تو کانگریس کے سنجیدہ ترجمان وٹھل راؤ گڈگل نے ایک کش لیا اور مسکرا کر بولے، "ان کے نزدیک وہ ان کی جماعت کے بانی ہیں"۔ بس۔ انہوں نے اتنا ہی کہا۔ اور اتنا ہی انہیں کہنا چاہیے تھا۔
علی گڑھ تو بنایا ہی اس لئے گیا تھا
جہاں تک علی گڑھ یونیورسٹی کا تعلّق ہے، سر سید احمد خان نے 'محمّڈن اینگلو اوریئنٹل کالج بنایا ہی اپنی قوم کو 1857 کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کے باعث ان کی بابت برطانوی راج کے متعصبانہ رویے سے بچانے کے لئے تھا۔
'ہندو مسلم اتحاد کا سفیر'، جناح کی تعریف یا ایک تازیہ
1916 میں، لکھنؤ معاہدے کے موقع پر، سروجنی نائڈو نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا۔ ایک غیر ارادی نکتہ جو اس لقب میں موجود تھا، وہ یہ تھا کہ جناح کو صرف مسلمانوں کا رہنما قرار دے دیا گیا، جبکہ نہرو اور گاندھی بھارتی ہیرو قرار پائے، غالباً کیونکہ وہ ہندو تھے۔
ان الفاظ نے کہیں نہ کہیں جناح کو بھی ویسے ہی تاؤ دلایا ہوگا جیسے ایک مشاعرے کے دوران مجاز کے الفاظ نے سلام مچھلی شہری کو دلایا تھا۔ "اب سلام اپنا کلام پیش کریں گے۔ یہ مچھلی شہر کے ایک مانے ہوئے شاعر ہیں"۔ بھارت کے لیڈر گاندھی سے ملیے۔ اور یہ جناح ہیں، مسلمانوں کے رہنما۔ اس تعارف نے ایک خونیں اختلاف کی بنیاد رکھی۔
کیا مسلم صدر، مسلم فلمی ستارے کافی ہیں؟
یہ سوچ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ مسلم صدور، مسلم فلمی ستارے اور ایک موقع پر مسلم وزیر داخلہ بھی ہندوستان نے پیدا کیے۔ بہت اچھی بات ہے۔
گاندھی نے تحریک خلافت کی حمایت اور اپنی مذہب پرستی میں اس کا بالکل الٹ کیا۔ ان کی اس اپروچ سے ایک پوری قوم واپس قرون وسطیٰ میں دھکیل دی گئی اور آج وہی ملّا اس کے رہنما بنے بیٹھے ہیں جو آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے روح رواں ہیں۔
لیکن دراصل جو اس قوم کو ہمیشہ چاہیے تھا، وو برابر حقوق، جن میں فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں نوکریاں اور سب سے بڑھ کر تعلیم شامل ہیں۔ ایک مسلمان صدر یا ایک مسلمان فلمی ستارہ تو کوئی فائدے کا سودا نہ ہوا۔ ابھی اگلے دن جسٹس سچر ہمیں مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت پر زور دیتے دنیا سے کوچ کر گئے۔
جناح اور سر سید جدیدیت کے حامی جبکہ گاندھی مسلمانوں کو ملاؤں کے ہاتھ میں دینے کے خواہشمند
جناح اور گاندھی کے درمیان اختلاف کا ایک اہم نکتہ جدیدیت تھا۔ سر سید اور جناح مسلمانوں کو ملاؤں کے چنگل سے آزاد کرانے میں جدّت اور شعور کو سب سے اہم ہتھیار سمجھتے تھے۔ گاندھی نے تحریک خلافت کی حمایت اور اپنی مذہب پرستی میں اس کا بالکل الٹ کیا۔ ان کی اس اپروچ سے ایک پوری قوم واپس قرون وسطیٰ میں دھکیل دی گئی اور آج وہ ملّا اس کے رہنما بنے بیٹھے ہیں جو آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے روح رواں ہیں۔
یہ وہی ملّا ہیں جن کے ہاتھ میں کروڑوں مسلمانوں کی قسمتوں کے فیصلے گاندھی جی نے دیے تھے اور ہر جماعت ہر بار انہیں اپنی انتخابی کامیابی کے لئے استعمال کرتی ہے۔ جبکہ جناح کے ہیرو مصطفیٰ کمال اتاترک تھے۔ وہی اتاترک جس نے صدیوں سے ملائیت میں جکڑی اپنی قوم کو اس جبر سے نجات دلائی تھی۔
تو اچانک وزیر اعظم مودی کے حامیوں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لگی جناح کی تصویر بری کیوں لگنے لگی؟
ایک روز اچانک پارٹی کا ایک ڈپٹی، وائس چانسلر کو خط لکھتا ہے کہ یہ تصویر ہٹا دی جائے اور اگلے ہی روز پولیس کی مدد سے وہ یونیورسٹی پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہ تصویر دہائیوں سے یہیں موجود ہے، اس وقت سے جب جناح نے یہاں آ کر طلبہ سے ملاقات کی تھی۔ اور یہ واجپائی جی کے لاہور جا کر مینار پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان کے تصوّر پر مہر تصدیق ثبت کرنے سے بہت پہلے کی بات ہے۔
نتھورام گوڈسے کی روح تو اس وقت بہت تڑپی ہوگی۔ ان کی تو استیاں بھی ابھی تک رکھی ہوئی تھیں کہ ہندو راشٹرا میں شمولیت کے بعد انہیں دریائے سندھ میں بہایا جائے۔ واجپائی جی نے اس خواب کو ہی بہا دیا اور کسی ہندتوا دیوانے نے احتجاج نہ کیا۔
انتخابات کرناٹک میں، بلوا لکھنؤ میں
عقل سے مکمّل طور پر عاری جتھے سرحد کے دونوں جانب اپنی حب الوطنی کی خاطر جو کچھ کرتے ہیں، اس کا منطق سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حالیہ غنڈہ گردی کے پیچھے بہر حال سیاست کارفرما تھی۔ کرناٹک اسمبلی کے انتخابات 12 مئی کو ہونے جا رہے ہیں۔ یہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ان انتخابات کو جنوبی ہندوستان میں راستہ بنانے کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے مگر اسے جنوب میں کہیں بھی پاؤں جما کر کھڑا ہونے کی جگہ نہیں مل رہی۔
بی جے پی کے لئے کرناٹک کے انتخابات کو قومیت کی بنیاد پر مرتکز کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہاں کانگریس کی حکومت ہے۔ ورنہ یہ طریقہ اب تک ہر جگہ کامیاب رہا ہے۔ لہٰذا بدمعاشوں کو کرناٹک سے دور یکم مئی کے دن اتر پردیش میں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہندتوا کے منکوحہ چینل اس غنڈہ گردی کو اپنا فرض سمجھ کر کرناٹک کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی عوام کو دکھا رہے ہیں۔
اس سب کا ووٹرز پر کیا اثر پڑتا ہے یہ تو 15 مئی کو ہی پتہ چل سکے گا لیکن فی الحال بی جے پی نے اس الیکشن پر اپنا سب کچھ لگا دیا ہے، بشمول مودی جی کی کمپین کے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کو بھی فوری طور پر کرناٹک بھیجا گیا ہے کہ وہ جا کر لوگوں کو شرمندہ کریں کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کو قبول کر رکھا ہے جو گائے ذبح کرنے کی اجازت دیے ہوئے ہے۔
مسلمان مودی کا ہراول دستہ
دیگر جنوبی ریاستوں کی طرح بی جے پی کی حکومت والے گوا اور تمام شمالی ریاستوں میں بھی گائے ذبح کرنے کی مکمّل اجازت ہے۔ اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے بی جے پی نے مسلمانوں سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے، تو آپ پھر غلط ہیں۔ پارٹی نے مغربی بنگال میں درجنوں مسلمان امیدوار کھڑے کیے ہیں جہاں زیادہ تر مسلمان مکھے منتری ممتا بنیرجی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور اس دن جناح کی تصویر کے خلاف احتجاج میں کون پیش پیش تھا؟ جی ہاں، بی جے پی کے مسلمان حامی۔
ہندوستان کے لبرل سوچ لیں، آج جناح ہیں، کل کو آپ بھی تو ہو سکتے ہیں
سوال یہ ہے کہ ہندوستانی لبرلز کا جناح تنازعے پر مؤقف کیا ہے؟ کیا بایاں بازو یہ بھلا سکتا ہے کہ اس نے جناح کی پاکستان کی مانگ کی حمایت کی تھی؟
لاہور سے تعلق رکھنے والی مرحومہ طاہرہ مظہر خان نے ایک بار خاصی تفصیل سے مجھے بتایا تھا کہ وہ سائیکل پر کمیونسٹ پارٹی کا پاکستان کے لئے حمایت میں پیغام جناح کے پاس لے کر گئیں۔ ٹھیک ہے آج کمیونسٹ اس تصوّر سے برات کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن صرف برات کا اعلان انہیں ہندتوا کے حملوں سے نہیں بچا سکتا۔ نشانہ جناح نہیں، آزاد خیال ہیں۔ یہ کافی واضح ہے کہ وہ جو جناح سے نفرت کرتے ہیں وہ نہرو اور بائیں بازو کے بھی کوئی عاشق نہیں۔ گڈگل سے سیکھئے، بھلے ان کی طرح کش نہ لگائیں۔