شیر شاہ سوری پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ یہ 1969 کی بات ہے جب قدرت نے ایک تحفے کے طور پہ اس علاقے کے عوام میں ایک ہیرا پیدا کیا۔
شیر شاہ سوری نے وکالت اور پولیٹکل سائنس کے شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔ بڑے بڑے کیس جیتے اور بڑے بڑے جریدوں نے ان کے سیاسی مضامین کو چھاپا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
جب سلطنت کے نئے بادشاہ نے نظام کی باگ ڈور سنبھالی تو حالات دیکھ کے ششدر رہ گئے۔ بادشاہ کو شروع ہی سے اس بات کا ادراک ہو گیا کہ اگر حالات کو بدلنا ہے تو شیر شاہ سوری جیسے عظیم رفقا کی مدد لینا ہو گی۔ اس ضمن میں بادشاہ نے اپنے ان تمام قریبی ساتھیوں کے اصل عزائم بھانپ لیے۔ بادشاہ سلامت نے اس خالی کرسی کی طرف دیکھا جس کرسی سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہونی تھیں۔ یہ دیکھ کر کہ ان کے کہنے کو جو دوست ہیں بھوکی نظروں سے اس کرسی کی جانب دیکھ رہے ہیں، بادشاہ ڈر گیا۔ اس نے آس پاس دیکھا مگر کوئی بھی ایک آنکھ نہ بھایا۔ اتنے میں بادشاہ کی نظر ایک انتہائی مسکین نوجوان پر پڑی جس کی عمر 49 سال تھی جو کہ بالکل بھی طاقت اور شہرت کا طلب گار نظر نہ آتا تھا۔
بادشاہ سوچ میں پڑ گیا کہ کروں تو کیا کروں۔ ابھی بادشاہ کے ساتھی اس کے آخری فیصلے کے منتظر تھے کہ اتنے میں بادشاہ نے شیر شاہ سوری پر انگلی رکھ دی۔ عجب بات یہ تھی کہ اس لمحے تک شیر شاہ سوری کو کوئی نہ جانتا تھا اور اسی لئے درباری یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید بادشاہ مذاق کر رہے ہیں۔ اتنے میں بادشاہ کے ایک انتہائی قریبی شہباز گل نامی مشیر نے بلند آواز میں کہا 'حدِ ادب'!
ایک سنناٹا سا چھا گیا۔ بادشاہ کی نظریں ابھی تک شیر شاہ سوری پر مركوز تھیں۔ شیر شاہ ابھی تک نظریں چھپائے نیچے دیکھ رہا تھا۔ شاہ کا یہ انکسار دیکھ کر بادشاہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے کہ اس نے اپنی حکمت سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کیا کہ اب اس کو اپنی بادشاہت میں سے کسی کو بھی کوئی حصہ نہیں دینا پڑے گا۔
بادشاہ سلامت کے کچھ قریبی ساتھیوں نے اجازت مانگ کر استفسار کیا کہ حضور یہ آپ نے کیا کر دیا۔ یہ شخص اتنا بڑا بیابان کیسے سنبھالے گا جس کو نہ ہی تجربہ ہے اور نہ ہی بظاہر اہلیت نظر آتی ہے۔ بادشاہ نے سب کے گلے شکوے سنے اور ان کو بتایا کہ اگر آج کے بعد کسی نے شیر شاہ سوری کی طرف بری آنکھ سے بھی دیکھا تو سر کاٹ دیا جائے گا۔
شیر شاہ سوری کے طاقت کا قلمدان سنبھالتے ہی کرپٹ نضام کے لوگ کانپ اٹھے کہ اب تو ان کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے نئے حکمران کو دل سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی یہ جرأت شیر شاہ کا انکسار دیکھتے ہوئے ہوئی۔ جب بادشاہ نے یہ سب دیکھا تو اس نے ایک اور فرمان جاری کیا کہ اگر آج کے بعد پھر کسی نے دل میں بھی شیر شاہ سوری کو برا یا نااہل سمجھا تو وہ اپنے عہدے سے جائے گا۔ ایسے میں سب سے پہلا شکار وہی نامراد شہباز گل نکلا جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ اس نے ہر گالی، طنز، بدتہذیبی کے ذریعے اس عظیم انتخاب کو بچانا ہے۔
سازشیں ہی سازشیں۔ اب بادشاہ کو یقین آ گیا کہ اس کا فیصلہ انتہائی درست تھا۔ اور اس ایک فیصلے کو برقرار رکھنے کے لئے وہ کئی فیصلے کرنے کو تیار تھا۔ بادشاہ نے ہر دو ماہ بعد پورے کے پورے عملے کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اور سب کو یہ دکھا دیا کہ اس ایک فیصلے کو پکا کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
یہ سب اپنی جگہ مگر عوام بہت خوش ہے۔ اب ان کو کسی کا کوئی ڈر نہیں رہا۔ شاہ کے انکسار اور صبر کو مدنظر رکھتے ہوئے اب عوام نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے تا کہ کم از کم شاہ صاحب کو تکلیف نہ ہو۔ پولیس نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی شاہ کی طرح کام کریں گے، عجز و انکسار کے ساتھ۔ چاہے کوئی جتھہ اسپتال پہ حملہ کرنے کے لئے رواں ہو یا ڈاکٹڑ ہڑتالوں پر ہڑتالیں کر رہے ہوں، غرض زمین، آسمان ایک ہو جائیں، وہ کچھ نہیں کریں گے۔
بادشاہ نے شاہ کی راہ میں ساری رکاوٹیں مٹا دیں۔ لیکن شاہ انکسار کے ہاتھوں مجبور ہے اور بدمزگی سے پرہیز کا عادی ہے۔ اس لئے جب بھی شاہ کو کوئی مشکل پیش آئے وہ بادشاہ سے بڑے ادب سے شکایت کرتے ہیں اور اگلے ہی دن پتہ چلتا ہے کہ ایک شاخ اور کٹ گئی لیکن شاہ وہیں ہے۔
بادشاہ نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے اس کی اپنی بادشاہت کا ستیا ناس ہو جائے، اس پارس منی کی حفاظت وہ کرتا رہے گا۔