Get Alerts

کیا مریم نواز اگلی سونیا گاندھی ہو سکتی ہیں؟

کیا مریم نواز اگلی سونیا گاندھی ہو سکتی ہیں؟
دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اپوزیشن کو Government in Waiting یعنی اگلی آنے والی حکومت کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزبِ اختلاف اہم معاملات پر ایک مختلف زاویہ یا نظریہ سامنے رکھتی ہے۔ بالغ جمہوریتوں میں حزبِ اختلاف پالیسی پیپرز شائع کرتی ہے، حکومت کی معاشی، دفاعی، خارجہ اور داخلہ پالیسی پر کڑی نظر رکھتی ہے، حکومت بجٹ پیش کرتی ہے تو اپوزیشن بھی اپنا ایک shadow budget پیش کرتی ہے اور اپنا نکتہ نظر عوام کے سامنے رکھ کر یہ بتاتی ہے کہ اگر وہ حکومت میں ہوتی تو کیا کرتی۔ یہی اقدامات عوام میں اس کے لئے اعتماد بڑھاتے ہیں اور الیکشن کے موقع پر یہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپنی کارکردگی عوام میں لے کر جاتی ہے۔

لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا کسی بھی معاملے پر کوئی واضح مؤقف سامنے ہی نہیں آتا۔ مسلم لیگ نواز ایک قومی سطح کی جماعت ہے جس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 2018 کا الیکشن اس سے چوری کر کے عمران خان کو جتوایا گیا وگرنہ یہ اس وقت اقتدار میں ہوتی۔ سوال یہاں یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کرونا کے معاملے پر مسلم لیگ کا مؤقف کیا ہوتا؟ کیا وہ لاک ڈاؤن کے حق میں ہوتی یا اس کے خلاف؟ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس کی جانب سے کوئی بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ شہباز شریف نے ابتدا میں لاک ڈاؤن کے لئے ایک خط ضرور وزیر اعظم کو لکھا تھا لیکن اس واقعے کو اب ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر ٹوئیٹس کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی جماعت کی ملکی معاملات میں کوئی متحرک سیاست دیکھنے میں نہیں آ رہی۔

دنیا نیوز سے تعلق رکھنے والے رپورٹر اور تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی اپوزیشن میں کوئی خرابی نہیں۔ دو سال کا عرصہ کسی بھی حکومت کے لئے بہت کم ہوتا ہے اور اتنے قلیل عرصہ حکومت کے بعد اس کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے تو یہ تحریک کامیاب نہیں ہو پاتی۔ مسلم لیگ نواز ایک بڑی جماعت ہے اور اگر وہ ورکرز کو متحرک کرنے کی کوشش کرے گی تو اس کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں، تاہم، ابھی اس کا شاید وقت نہیں آیا ہے۔

لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ واقعتاً dysfunctional ہو چکی ہے اور اس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر دو دھڑوں کی پارٹی پر قبضے کے لئے رسہ کشی ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف مریم نواز ہیں جو شہباز شریف کی قیادت سے خوش نہیں۔ مریم نواز جارحانہ سیاست کی قائل ہیں اور سمجھتی ہیں کہ شہباز شریف کی روایتی طرز کی سیاست جس میں امپائروں کو اپنے ساتھ ملا کر کھیلنا ضروری ہوتا ہے، پارٹی کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوگی۔ دوسری جانب شہباز شریف ہیں جن کے پاس پارلیمانی سیاست کا قریب 30 سال کا تجربہ ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد گورننس پر بھی مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

شہباز شریف کے قریبی ساتھیوں میں رانا تنویر اور خواجہ آصف جیسے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں جب کہ مریم نواز کے قریبی حلقے میں سب سے قد آور شخصیت سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی ہے۔ جب کہ پارٹی کے اندر باقی تمام چھوٹے بڑے رہنما فی الحال گو مگو کی کیفیت میں ہیں۔ وہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب دو دھڑوں میں سے کوئی ایک دھڑا دوسرے پر غالب آ جائے گا تو وہ اپنا وزن اسی کے پلڑے میں ڈال دیں گے۔ ایسے سیاستدانوں میں سب سے آگے احسن اقبال اور لاہور کے خواجہ برادران ہیں۔ رانا ثنااللہ جو عمومی طور پر اپنے دبنگ اندازِ تکلم کے لئے مشہور ہیں، وہ بھی خاموشی سے تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔

نیا دور سے بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ شہباز شریف گروپ میں دو ہی سینیئر سیاستدان ہیں جب کہ ان کے ارد گرد باقی سارا حلقہ ٹیکنوکریٹ قسم کے لوگوں کا ہے۔ رانا تنویر حسین اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ شہباز شریف کے بھی قریب ہیں۔ جب کہ خواجہ آصف صاحب اس وقت صرف اور صرف جیل نہیں جانا چاہتے اور اس کے لئے وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہیں جو انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچا سکے۔ تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف بنیادی طور پر عوامی سیاستدان ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ان کا شیوہ نہیں لیکن ان کے خلاف کرپشن کیسز میں ان کے علاوہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کے نام بھی شامل ہیں اور وہ ان کو کسی قسم کی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے۔

لیکن جہاں شہباز شریف کے ساتھیوں کی ان سے کمٹمنٹ پر شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے، وہیں شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے بھی پارٹی کے اندر تحفظات موجود ہیں۔ گذشتہ دنوں عاصمہ شیرازی نے اپنے کالم میں شاہد خاقان عباسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مریم نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل بننے کے لئے متحرک ہو گئے ہیں۔ نیا دور کو مسلم لیگ نواز میں موجود ذرائع نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئی پارٹی رہنماؤں کی ایک میٹنگ میں مریم نواز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر سیاستدان نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے وہ کل کو سونیا گاندھی بن جائیں‘۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو سونیا گاندھی سے تشبیہ دینا دراصل اسی بدنامِ زمانہ ’مائنس ون فارمولے‘ کا دوسرا نام ہے کہ جس کے مطابق مسلم لیگ نواز تو اقتدار میں ہو لیکن اس کی قیادت یعنی شریف خاندان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ موجود نہ رہے۔ پارٹی ذرائع نے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا کہ شاہد خاقان عباسی نے ایک مرتبہ نواز شریف کے بغیر وزارتِ عظمیٰ چلا کر دکھا دی ہے اور اگر شریف خاندان سے باہر لیکن مسلم لیگ نواز کے اندر کے ہی کسی شخص نے ایک بار پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی کامیابی سے چلا کر دکھا دی تو مسلم لیگ نواز شریف خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور پھر اس پارٹی کا شیرازہ بکھیرنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔ پارٹی ذرائع نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ’سونیا گاندھی سے آگے راہول گاندھی تک کا سفر تو انتہائی آسان ہوگا‘۔

سینئر صحافی و تجزیہ نگار وجاہت مسعود اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور اس سے اوپر کوئی عہدہ ہے نہیں جس کی لالچ میں وہ نواز شریف اور مریم نواز کو دھوکہ دیں، وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب انہیں وزارتِ عظمیٰ نواز شریف ہی کے فیصلے سے ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز میں دو نظریے ہیں، جن میں سے ایک نواز شریف کا ہے اور دوسرا شہباز شریف کا۔ شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے نظریے کے ساتھ ہیں لیکن یہ سمجھنا کہ شہباز شریف کے ساتھ پارٹی کے انتہائی کم لوگ ہیں، درست نہیں۔ پارٹی میں موجود electables کی اکثریت شہباز شریف کی ہمنوا ہے لیکن وہ کھل کر ان کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ ووٹ کے لئے انہیں واپس عوام میں جانا ہے اور مسلم لیگ نواز کا ووٹر نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہے۔

وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی سے متعلق یہ کہنا کہ وہ مریم نواز کو سونیا گاندھی بنانا چاہتے ہیں، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہے۔ پارٹی کو نقصان شہباز شریف نے پہنچایا ہے، شاہد خاقان عباسی نے نہیں۔ اور یہ نقصان شہباز شریف نے مسلم لیگ کو مسلم لیگ والی سیاست کر کے پہنچایا ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کا ورکر اور ووٹر اب اس سیاست سے آگے نکل چکا ہے۔

’’یہ لڑائی مسلم لیگ نواز کے ورکر اور مسلم لیگ کے ڈی این اے کے درمیان ہے۔ شہباز شریف کی سیاست مسلم لیگ کے ڈی این اے میں ہے جس سے اب نواز لیگ کا ووٹر بغاوت کر رہا ہے‘‘۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.