چین میں کرونا کی وبا نے پچھلے سال دسمبر میں اپنا رنگ دکھانا شروع کیا جب کہ پاکستان میں یہ اس سال فروری کے اوائل میں نمودار ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ متحد ہو کر اس سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کرتے لیکن ابتدا سے ہی اس کے تدارک کے بارے میں مرکزی اور صوبائی سطع پر اس سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا جو اس عالمی وبا کا تقاضہ تھا۔
سندھ کی صوبائی حکومت نے محدود وسائل کے باوجود ایک حد تک اس پر کام کیا لیکن مرکزی حکومت جس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مشکل میں ملک کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلے وہ سندھ کی صوبائی حکومت سے سینگ پھنسا بیٹھی اور اس کے تمام وزرا نے مرکزی حکومت کی ترجمانی کے فرائض سنبھال لیے جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہوئی اور اس وبا کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات میں لگ گئے۔
ہمارے وزیر اعظم ہر مسئلے کی طرح اس پر بھی کوئی واضع مؤقف نہ اپنا سکے اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے بیان بدلتے رہے۔ ایک دن کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کرنے سے غریب طبقہ متاثر ہوگا تو دوسرے دن فرماتے کہ لاک ڈاؤن نہ کیا تو بہت جانی نقصان کا اندیشہ ہے اور یہ کیفیت آج تک برقرار ہے۔
وزیر اعظم کے بار بار یوٹرن لینے سے عوام میں بددلی پھیلی کہ آخر کرنا کیا ہے۔ آج مرکزی حکومت نے لاک داؤن کھولنے کا اعلان کیا ہے اور صوبائی حکومتوں نے بھی اس پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ملک کے ماہر ڈاکٹر حضرات اس صورتحال سے چنداں خوش نہیں کیونکہ بقول ان کے نرمی کرنے سے اس وبا کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ہے۔
اب کرونا کی وبا کے اثرات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وبا کے سبب لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں جس سے گھروں میں جھگڑے ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ دوسرا پہلو دگومفیکھیں تو تمام چینل 24/7 صرف اور صرف کرونا کا ہی رونا لے کر بیٹھ گئے جس کے منفی اثرات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
بجا کہ یہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے لیکن کیا اس کے علاوہ دنیا میں اور کچھ نہیں ہو رہا؟ تسلیم کہ اس مسئلے پر بات کرنا ضروری ہے لیکن کیا سارا وقت لوگوں کو دنیا بھر میں اس وبا سے بیمار اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد بتا کر لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا نہیں کیا جا رہا؟ چینلز کے کرتا دھرتاؤں سے درد مندانہ درخواست ہے کہ گھروں میں بیٹھے لوگوں کو اس کے علاوہ بھی کچھ دکھائیں تاکہ لوگ ذہنی بیمار نہ ہو جائیں۔