18 مارچ کو مجھے اپنے دوست ارشد کا قدرے غیرمتوقع میسج موصول ہوا۔ وہ لاک ڈاؤن سے پیدا شدہ صورتحال میں روزانہ مزدوری کرنے اور روزانہ کمانے والوں کے لئے پریشان تھے اور متاثرہ سفید پوش خاندانوں کی مدد کے لئے راشن فراہم کرنے کی ضرورت کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ بات کچھ دنوں سے میرے دل و دماغ میں بھی چل رہی تھی، چنانچہ میں نے فوراً اپنی آمادگی ظاہر کر دی۔ میں نے پھر اپنے ایک اور دوست احسن کو میسج کیا، جنہوں نے اپنے مزید کچھ دوستوں کو آگاہ کیا۔ اس طرح تیس دن سے بھی کم عرصے میں عطیات اکٹھا کرنے اور راشن بیگ تقسیم کرنے کی ہم دوستوں کی یہ کاوش ایک چھوٹی سی تحریک بن گئی۔
بفضلِ خدا ہم 2100 بڑے راشن بیگ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے، جو کہ ایک بیگ چار سے پانچ افراد کے کنبے کے لئے 15 سے 20 روز کے لئے کافی تھا۔ ایک نیک دل رضاکار نے ہمارے لئے ایک ویب ایپلی کیشن بھی تیار کر دی، جو کہ ایک صاف و شفاف ڈیٹا بیس برقرار رکھنے کے لئے کارگر ثابت ہوئی۔
ہمارا ہدف ابتدائی طور پر 100 گھرانوں تک پہنچنا تھا، لیکن ہمیں پوری طرح ادراک نہیں تھا کہ کتنے زیادہ لوگوں کے لئے صورتحال کس قدر مشکل ہے۔ زمینی حقائق نے ہمیں جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ 100 خاندان ہمیں کافی کم محسوس ہوئے۔ ہمیں بہر صورت اپنی استعداد کو بڑھانا تھا، عطیات کی کلیکشن میں تیزی لانی تھی، اور زیادہ سے زیادہ خاندانوں تک راشن بہم پہنچانا تھا۔
ہم جانتے تھے کہ ایک بڑی مہم کا اہتمام کرنا مشکل ہوگا اور رقم اکٹھا کرنے والا پہلو کچھ خوفزدہ بھی کر رہا تھا، لیکن لوگوں نے ہمیں اپنے کھلے دل سے حیران کر دیا۔ حقیقت میں جس چیز نے ہمیں مشکل میں ڈالا، وہ ان خاندانوں کا پتہ لگانا تھا کہ جن کو راشن کی ضرورت تھی۔ ہم نے شروع ہی سے فیصلہ کیا تھا کہ ہم خاص طور سے ان خاندانوں کا پتہ لگائیں گے جو سفید پوش ہیں اور مدد طلب کرنے کے لئے سامنے نہیں آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آمدنی کی پروفائلنگ کا کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے کہ جس کی مدد سے ضرورت مند خاندانوں کی شناخت کی جا سکے۔
ہمارے ملک میں شہریوں کے معاشی حالات کو دستاویزی شکل دینے میں سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس فائلر ہونے کا مطلب یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ٹیکس فائلر صرف اور صرف ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ہی کو بننا چاہیے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زیادہ تر افراد جن کو آج امداد کی ضرورت ہے، وہ فیڈرل بیورو آف ریونیو یا کسی دوسرے سرکاری ڈیٹا بیس میں سرے سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، امداد کی فراہمی کا استعمال گلی اور یونین کونسل کی سطح پر کیا جانا چاہئے، کیوں کہ ہر ایک اپنے ایریا کونسلر کو جانتا ہے۔ اس اقدام سے ارکان پارلیمنٹ کے غیر ضروری اور منفی سیاسی کردار کو بھی مؤثر طریقے سے کم یا ختم کیا جا سکے گا، کیونکہ کہ ان میں سے بیشتر اپنے انتخابی حلقوں میں رہتے ہی نہیں ہیں۔ اور دنیا بھر میں امداد پہنچانے کا مصدقہ اور قابل بھروسہ طریقہ کار بلدیاتی اداروں اور ضلعی انتظامیہ کو بروئے کار لانا ہی ہے۔
ہمارے ملک میں کمی یہ ہے کہ وبائی امراض اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے مقامی سرکاری عملے کو بااختیار نہیں بنایا گیا اور نہ ہی مناسب تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہیں شفاف، قابل بھروسہ، اور ہمدردانہ انداز میں امداد لوگوں کے دروازوں تک پہنچانے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں سیاسی دباؤ سے مکمل آزاد کرنا ہوگا۔
پاکستان میں ہر شہری کو بلاتفریق چپ والا سمارٹ شناختی کارڈ دیا جانا چاہیے، جو کہ پاکستان میں عام طور پہ سمارٹ کارڈ کہلاتا ہے۔ سمارٹ کارڈ جو کچھ فراہم کر سکتا ہے وہ لا محدود ہے: یہ ایک مکمل دستاویزی، شناختی، اور ادائیگیوں کا نظام اور امدادی ترسیل کا آلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ سمارٹ کارڈز اور انکم پروفائلنگ سے 8171 جیسی ہیلپ لائن کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ آپ کو نقد رقم تقسیم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ چپ پر مبنی سمارٹ کارڈز ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی حیثیت سے باآسانی کام کر سکتے ہیں۔
سمارٹ کارڈز 220 ملین افراد کے ترقی پذیر ملک میں گراس روٹ سبسڈی کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ سمارٹ کارڈز خریداری اور پہلے سے منظور شدہ سبسڈی کے حصول کو نہایت آسان اور قابل بھروسہ بنا سکتے ہیں۔ ان کارڈز کے ذریعے عوام یوٹیلٹی سٹورز سے خریداری کر سکتے ہیں اور اے ٹی ایم مشینوں سے نقد امداد وصول کر سکتے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مختلف سرکاری اورغیر سرکاری راشن مہمات سے پہلے ہی راشن بیگ وصول کر لینے والے خاندانوں سے متعلق کوئی ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا تھا۔ اس نااہلی کی وجہ سے ہمارے بہت وسائل ضائع ہو سکتے ہیں۔ اس سے غلط استعمال، نااہلی، اور سب سے بڑھ کر مستحق خاندانوں کے محروم رہ جانے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا اقدامات انقلابی نوعیت کے ہیں۔ اگر ان کو نافذ کر دیا جائے تو کسی بھی قدرتی آفت کے دوران سرکاری اور غیر سرکاری امداد کو آسان، شفاف، اور قابل بھروسہ بنایا جا سکتا ہے۔ گورنمنٹ ان اقدامات کو بغیر کچھ زیادہ خرچ کیے اور ناکامی کے خوف کے بغیر نافذ کر سکتی ہے۔ کوئی نیا ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام ادارے موجود ہیں، صرف ان سے کام لینے کی ضرورت ہے۔