عمران خان کو تمام بڑے مقدمات میں عدالتوں کی جانب سے ریلیف مل رہا ہے مگر اب 9 مئی سے متعلق عمران خان کے خلاف بڑے سخت کیسز بنائے جا رہے ہیں جن سے پہلے قانون سازی کی جائے گی اور عدالتیں ان کیسز میں عمران خان کو کوئی ریلیف نہیں دے سکیں گی۔ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے بیچ کسی نہ کسی سطح پر بات چیت جاری ہے۔ عمران خان نہیں چاہتے کہ وہ جیل میں رہیں اور وزیر اعظم بیرسٹر گوہر یا عمر ایوب بن جائیں۔ عمران خان اس شرط پر مذاکرات کریں گے کہ انہیں دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے، لیکن اگر یہ نہیں ہو سکتا تو ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ یہ کہنا ہے سینئر صحافی جاوید چوہدری کا۔
آج نیوز کے پروگرام 'رُوبرو' میں گفتگو کرتے ہوئے جاوید چوہدری نے کہا کہ دنیا بڑی مشکل سے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ شخصیات کو سسٹم سے بڑا نہیں ہونا چاہیے، سسٹم کو شخصیات پر حاوی ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سسٹم کمزور ہے جبکہ شخصیات مضبوط ہیں۔ اسی لیے جب ایک شخصیت بدلتی ہے تو پورا سسٹم بدل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں شخصیات سسٹم پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ جو بھی آتا ہے وہ سسٹم کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری نے سسٹم توڑ دیا، لیکن امریکہ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پارلیمنٹ پر حملہ آور ہونے کے باوجود سسٹم بریک نہیں کر سکے۔ پچھلے 6 چیف جسٹس صاحبان کی پروفائل دیکھ لیں، ہر چیف جسٹس پورا عدل کا نظام تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا برین چائلڈ ہے اور پوری سٹیٹ اب ان کے ساتھ چل رہی ہے۔ کل کوئی اور چیف آئیں گے تو کہہ دیں گے کہ ایس آئی ایف سی کو بند کر دیں کیونکہ ہم افغانستان اور انڈیا کے ساتھ تجارت شروع کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بہت تگڑی ہے۔ دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوگا وہ راولپنڈی سے ہو گا، اسلام آباد سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ پورے پاکستان کے اندر ایک فوج کی طرز کا نظام لانا چاہیے۔ ہمیں اگر پاکستان کو واقعی چلانا ہے تو ایک مضبوط سسٹم چاہیے جسے کوئی بھی شخص توڑ نہ سکے۔
پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات سے متعلق انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک لیول پر پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں لیکن خان صاحب کے لیول پر نہیں چل رہے۔ یہ مذاکرات خان صاحب کی مرضی کے بغیر چلائے جا رہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کے باقاعدگی سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان کی باقاعدہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ شبلی فراز اور عمر ایوب کے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
جاوید چوہدری نے کہا کہ عمران خان این آر او ضرور مانگیں گے۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ خود تو اڈیالہ جیل میں رہیں جبکہ بیرسٹر گوہر یا عمر ایوب ملک کے وزیر اعظم بن جائیں۔ عمران خان دو شرائط پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کریں گے؛ پہلی شرط یہ ہو گی کہ انہیں پرائم منسٹر بنایا جائے۔ اور اگر انہیں نہیں بناتے تو پھر ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ عمران خان کی خواہش بھی یہی ہے کہ بشریٰ بی بی کو پرائم منسٹر بنا دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر 9 مئی واقعات کو ایک سال گزرنے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں مل سکی تو ابھی تک کسی کو چھوڑا بھی نہیں گیا، سوائے خدیجہ شاہ کے جو امریکن پاسپورٹ ہولڈر تھیں اور امریکہ نے ان کی حراست پر کافی شور کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملزمان کو فوراً سزا دے کر کیفر کردار تک پہنجایا جائے۔ دوسرا یہ کہ کیسز کو لٹکا کر رکھا جائے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ جیل میں ہیں وہ لٹکے ہوئے ہیں اور جو باہر ہیں ان پر بھی تلوار لٹک رہی ہے۔
جاوید چوہدری نے انکشاف کیا کہ عمران خان کے خلاف 9 مئی سے متعلق خطرناک قسم کے کیسز شروع ہونے والے ہیں۔ عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ہائی کورٹ سے ریلیف مل جائے گا۔ سائفر کیس میں انہیں پہلے ہی تقریباً ریلیف مل چکا ہے۔ عدت کیس میں بھی مل چکا ہے۔ لیکن 9 مئی سے متعلق جو کیسز آںے والے ہیں، ان میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ بھی انہیں ریلیف نہیں دے سکیں گی۔ ان کیسز سے پہلے باقاعدہ نئی قانون سازی ہو گی جس پر عدالتیں کچھ نہیں کر سکیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی خواہش پر 9 مئی واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تو بن جائے گا لیکن وہ خود اس سے بھاگ جائیں گے۔ جس جج کو جوڈیشل کمیشن کا سربراہ لگایا جائے گا یہ اس کو قبول ہی نہیں کریں گے۔ پھر تحقیقات اور رپورٹ کو بھی قبول نہیں کریں گے۔
جاوید چوہدری کے مطابق 9 مئی ہوا تو تحریک انصاف کے سابق سینئر لیڈرز پیچھے چلے گئے جن کی جگہ عمران خان وکلا پر مشتمل نئی ٹیم لے آئے اور اب ان وکلا نے پارٹی پر قبضہ کر لیا ہے۔ پرانے لوگ جب روپوشی اور جیلوں سے واپس آئے تو عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وکلا کو ہٹائیں لیکن عمران خان نے کہا کہ آپ بے اعتبار ہیں، آپ تو سال بھر چھپے رہے۔ خان صاحب کا خیال یہ ہے کہ جو آرام سے جیلوں سے باہر آ گئے ہیں وہ میرے نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جاوید چوہدری نے کہا کہ مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت کا ایک میز پر آنے کا امکان اگلے سال ہی متوقع ہے۔ تب تک حکومت ملکی معیشت کو کچھ حد تک سدھار چکی ہو گی اور عمران خان بھی سمجھ چکے ہوں گے کہ وہ اب پھنس چکے ہیں، اس لیے وہ بھی نیچے آ جائیں گے۔