لفظ عید عود سے بنا ہے جس کے معنی لوٹنا اور بار بار آنے کے ہیں۔ چونکہ یہ پُرمسرت دن ہر بار لوٹ کر آتا ہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لے کر آتا ہے، اس لیے یہ دن عید کا دن کہلاتا ہے۔
قرآن پاک میں سورة المائدہ میں عید کا لفظ حضرت عیسی علیہ اسلام سے منسوب ہوا ہے۔ عید کا معنی خوشی لیا جائے تو رسول کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی اللہ تعالی کی رحمت کوئی اور نہیں لہذا انکی پیدائش سے بڑی خوشی بھی کوئی اور نہیں ہے۔
لہذا رسول کی ولادت مبارک کی خوشی منانا رسول کائنات کا ذکر کرنا عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلاتا ہے۔ اللہ پاک نے خود فرمایا کہ " ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا" لہذا ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی سنت بھی ہے اور حکم بھی ہے۔
عید کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے عید شرعی اور عید واجب اور دوسری عید فرحت، عید مسرت اور عید تشکر ہے۔ یہ مستحب اور مستحسن ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے مسلمان محبوب خدا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشی منانے کو بھی عید کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بارے تین مسند روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپؐ کی ولادت 9 ربیع الاول کو ہوئی دوسری روایت کے مطابق آپؐ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی جبکہ تیسری روایت کے مطابق 17 ربیع الاول کو ہوئی۔ لیکن امہ کا اجماع 12 ربیع الاول والی روایت پر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بارے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے کہ " تمھارے لیے رسول اللہؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے" لہذا اللہ رب العزت نے یہ تو واضح کر دیا ہے کہ رسول کائنات سے بہترین زندگی کسی کی بھی نہیں ہے، اور اب رہتی دنیا تک آپؐ کی زندگی ہی میں ہمارے لیے مکمل نمونہ ہے۔
اگر رسول کائنات کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو ہمارے لیے ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے۔ اگر بیٹے ہو تو آمنہ کے لال کی والدین سے محبت دیکھو۔ شوہر ہو تو بیوی کے ساتھ خدیجہ و عائشہ کے شوہر کا برتاو دیکھو۔ باپ ہو تو فاطمہ کے باپ کا بیٹی کے استقبال کیلئے کھڑے ہونا اور پیشانی پر بوسہ دینے کی تقلید کرو۔ نانا ہو تو حسینن کریمین کے نانا کا نواسوں سے پیار دیکھو۔ استاد ہو تو 1 لاکھ 24 ہزار اصحاب کے استاد کا طرز تدریس دیکھو۔ دوست ہو تو ابوبکر و عمر و عثمان و علی کے دوست کی وفا دیکھو۔ حکمران ہو تو ریاست مدینہ کے والی کی سادہ زندگی دیکھو۔ منصف ہو تو حجرہ اسود کا فیصلہ کرنے والے کا انصاف دیکھو۔ رئنما ہو تو غزوہ بواط سے غزوہ تبوک تک رائنمائی کرنے اور سپہ سالار ہو تو بدر سے حنین تک جہاد کرنے والے کی زندگی کا جائزہ لو۔ تاجر ہو تو شام کے بازار میں تجارت کرنے والے کو اور خریدار ہو تو مدینہ کے بازار میں خریداری کرنے والے کو دیکھو۔ غیر مذہب سے حسن سلوک دیکھنا ہو تو اپنی مسجد میں انکو عبادت کرنے کی اجازت دینے والے کی زندگی پڑھو۔ کردار کی سادگی ،امانت اور سچائی دیکھنی ہو تو جان کے دشمنوں بھی جس کی صداقت و دیانت کی گواہی دیتے ہوں اس ذات اقدس کا مطالعہ کرو۔
ہم سب عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اظہار کرنے سے مکمل قاصر ہیں۔ صادق و امین لقب رکھنے والے رسولؐ کی امت جھوٹ بھی بولتی اور امانت میں خیانت کرنے کو برا بھی نہیں سمجھتی۔
رحمت اللعالمین کے پیروکار کہلانے والے آج ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینے کیلئے، قرآن پاک سے شادی کرنے والے ،بیوی کو پاوں کی جوتی سمجھنے والے، والدین کو گھر سے بے دخل کرنے والے، دوستوں کو وقتی مفاد کی خاطر دھوکہ دینے والے، شاگرد کو ذاتی خدمتگار بنانے والے، اختلاف رائے پر اپنے ہی ہم مذہبوں پر کفر کا فتوی لگانے والے اور ظاہر و باطن ایک جیسا نہ رکھنے والے کیسے محمدیؐ ہونے کا دعوی کرتے ہیں؟
آج عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے یہ ضرور سوچیے گا کہ کیا ہم واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانتے بھی ہیں یا پھر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی مانتے ہیں؟
میری سوچیں ہیں سوالی
میرا لہجہ ہو بلالی
شبِ تیرہ، کرے خیرہ
میرے دن بھی ہوں مثالی
تیرا مظہر ہو میرا فن
رہے اُجلا میرا دامن
نہ ہو مجھ میں کوئی کالک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک