سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے وزیراعظم عمران خان کو دیے گئے اگلے 4 ہفتے انتہائی مشکل ہوں۔
نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں میزبان رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی سے بات کرتے ہوئے عبدالقیوم صدیقی نے وزیراعظم کی آج سپریم کورٹ میں پیشی کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ اے پی ایس کے ورثا بہت زیادہ مایوس ہیں اور وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیراعلیٰ پرویز خٹک سمیت ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں وہ اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھے تھے تو اٹارنی جنرل پریشان تھے کہ اگر عدالت نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا معاہدے کر رہے ہیں تو میں کیا جواب دوں گا؟
عبدالقیوم صدیقی نے بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہوا اور جسٹس قاضی امین صاحب نے اس معاہدے کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا ریاست پھر سے سرینڈر کرنے جارہی ہے۔ ان کے اس سوال کی تائید پھر چیف جسٹس نے بھی کی۔
عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے بہت زیادہ ناراضگی پائی جارہی ہے۔ کیونکہ اس کی آڑ میں داعش، بلوچ اور باقی گروپ پاکستان میں ایکٹو ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی طرف صرف ایک سوال نہیں بلک 2 سوال آئے، پہلا سوال ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تھا اور دوسرا سوال سادھوکی میں 9 پولیس اہلکار شہید ہوئے کیونکہ سب کی جانیں اتنی پیاری ہیں جتنی وزیراعظم یا اور کسی بڑے عہدیدار کی۔
انہوں نے بتایا کہ آج وزیراعظم کورٹ میں بہت زیادہ فمبل کر رہے تھے انہیں بھی شاید صحیح طرح سے بریفنگ نہیں دی جاتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں آپ حکم کریں گے ہم کاروائی کریں گے حالانکہ 20 اکتوبر کو آرڈر جاری ہو چکا ہے۔ پھر وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن بنا دیں، کمیشن بھی بنایا جا چکا ہے، مطلب اس معاملے کو سنجیدہ نہیں جارہا ، وزیراعظم سمیت کوئی بھی اے پی ایس سانحے کو لے کر سنجیدہ نہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز یا کئی لوگوں کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تاریخی طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی سمیت تمام وزرائے اعظم جب بھی سپریم کورٹ آئے تو وہ سائلین کے گیٹ سے آتے تھے لیکن آج وزیراعظم کے آنے سے پہلے سخت سیکیورٹی کے حصار میں سپریم کورٹ ججز کے گیٹ سے ان کی انٹری کروائی گئی۔ جبکہ باہر وہ والدین موجود تھے جن کے بچے سیکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے مارے گئے۔
سینئر تجزیہ نگار مزمل سہروری نے کہا کہ جب سے احسان اللہ احسان بھاگا ہے تب سے والدین کافی ایکٹو ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے بچوں کے قاتلوں کے ساتھ سودے بازی ہورہی ہے۔ دوسری جانب احسان اللہ احسان کے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی باتوں نے والدین کے جذبات کو مجروح کیا۔
انہوں نے کہا کہ اے پی ایس ورثا کافی دیر سے لڑ رہے ہیں، پہلے میڈیا میں بات نہیں آتی تھی یا شاید کرنے نہیں دی جاتی تھی مگر سوشل میڈیا پر ان کا احتجاج نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ والدین کا قانونی حق ہے کہ وہ جس کو بھی چاہیں اپنے بچوں کے قاتل نامزد کریں۔ اس کے بعد باقاعدہ تفتیش ہوگی ، والدین موقف دیں گے، کچھ لوگ رہا ہوں گے اور کچھ کو سزا بھی ہو گی۔