'محلاتی سازشوں کی جنگ عمران خان ہار چکے، اب عزت بچانے کے لیے لانگ مارچ کر رہے ہیں'

'محلاتی سازشوں کی جنگ عمران خان ہار چکے، اب عزت بچانے کے لیے لانگ مارچ کر رہے ہیں'
معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اطلاعات مل رہی ہیں کہ حکومت قبل از وقت ہی نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس معاملے پر پی ڈی ایم میں مشاورت چل رہی ہے اور اگلے ایک دو دن میں پتہ چل جائے گا کہ حکومت نے یہ اعلان کرنا ہے یا ابھی نہیں۔ محلاتی سازشوں کی جنگ عمران خان ہار چکے ہیں اور اب عزت بچانے کے لیے عوام میں جا رہے ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اگلے تیس چالیس دن بہت اہم ہیں۔ سارے معاملے حتمی مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف کی تعیناتی، عمران خان کا اس تعیناتی پر اثرانداز ہونے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان، عمران خان کی الیکشن کمیشن میں نااہلی سے متعلق معاملات سبھی حتمی مرحلے میں جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے پریشر بڑھ رہا ہے۔ ساتھ ساتھ آڈیوز آ رہی ہیں۔ کچھ گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور کچھ کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خود فرنٹ پہ جا کے پی ٹی آئی کے مظاہرین سے لڑے تھے۔ انہیں وزارت داخلہ کی جانب سے پوری سپورٹ حاصل ہے۔ وہ اب بھی خود فرنٹ لائن پہ آ کے مظاہرین سے نمٹیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ عمران خان ایک خاص حد سے آگے جائیں گے۔

20 نومبر 2021 کو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی تک آئی بی اور آئی ایس آئی ایک ہی پیج پر رہے۔ عمران خان اپنے مخالفین اور صحافیوں پر کھل کر کارروائیاں کرواتے رہے ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں طے پایا تھا کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل ونگ بند کروایا جائے گا۔ عمران خان نے بعد میں اس شق کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان کا ریکارڈ اس معاملے میں بہت گندا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایجنسیوں کو اپنے حق میں استعمال کرتے رہے ہیں مگر اب جبکہ یہ سب ان کے اپنے خلاف جا رہا ہے تو شور مچا رہے ہیں۔ عمران خان ابھی بھی اس سارے معاملے سے سبق نہیں سیکھ رہے۔

معروف دانش ور ضیغم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان ماضی میں بڑے فخر سے کہتے رہے ہیں کہ ہماری ایجنسیاں بہت باخبر ہیں اور وہ میری بھی ساری باتیں سنتی ہیں۔ تب وہ ایجنسیوں کی تعریف اس لیے کر رہے تھے کہ انہیں لگ رہا تھا کہ میرے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ اب وہ ایجنسیوں کی اسی کارروائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اس طرح کی پولیٹیکل مینجمنٹ نہیں کی گئی جیسی عمران خان کے لیے کی گئی ہے۔ ادارے ان کے حق میں کیے گئے، میڈیا ان کے حق میں کیا گیا۔ دوسری پارٹیاں جب اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کی شکار ہوئیں تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوج کو سیاست سے الگ کر دینا چاہئیے مگر عمران خان حکومت سے باہر جا کر بھی کہ رہے ہیں کہ فوج میرا ساتھ دے۔

دھرنا پولیٹیکل مینجمنٹ کا ایک ٹول رہا ہے، یہ ٹول ریاست کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اسے اپنے طور پہ چلانا بہت مشکل ہے۔ پاکستان ایک مضبوط ریاست ہے، کوئی جتھا آ کر اس پر قبضہ نہیں کر سکتا جب تک کہ ان سے نرمی نہ برتی جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں آمروں نے جو بیانیہ سیاست دانوں کے بارے میں بنایا تھا عمران خان نے وہی بیانیہ اٹھایا۔ ساری سیاسی جماعتوں کو چور بنایا۔

پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان ہر معاملے میں جھوٹ بولتے ہیں اور ان کے حمایتی ان سے سوال ہی نہیں پوچھتے۔ آج عمران خان نے اپنی تقریر میں یہ جھوٹ بولا کہ ان کے دور میں ایک بھی ٹی وی چینل کو بند نہیں کیا گیا۔ مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور میں کئی چینل بند کروائے گئے، بعض چینل دو دو بار بھی بند ہوئے۔ کئی پروگرام بند کروائے گئے، کئی انٹرویوز رکوائے گئے، کئی صحافیوں پر حملے ہوئے، کئی صحافی اغوا ہوئے۔ صحافتی آزادی کی فہرست میں پاکستان سترہ یا اٹھارہ نمبر نیچے گیا اور عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے دور میں صحافت آزاد تھی۔

انہوں نے اعزاز سید کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ متعدد وجوہات کی بنا پر نئے آرمی چیف کی قبل از وقت نامزدگی کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔ عمران خان اسے اپنی فتح سمجھیں گے کہ میرے پریشر پر یہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پارلمینٹ میں واپس آ جائیں۔ اسلام آباد پر یلغار کی کوشش سے ان کی پارٹی کو شدید نقصان پہنچے گا۔

پروگرام کے دوسرے میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور میں سنسرشپ کا سامنا ہمارے اپنے ادارے 'نیا دور' نے بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہمارے ادارے کی اردو ویب سائٹ دو بار بند کی گئی اور ایک بار یوٹیوب چینل بند کیا گیا۔

پروگرام ہر پیر سے ہفتے کی رات کو 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔